زندگی کے سراب سے بچنا
عمر بھر کے عذاب سے بچنا
جس کی انگڑائی ہوش گم کر دے
ایسے کافر شباب سے بچنا
جو خود اپنے ہی گھر کا دشمن ہو
ایسے خانہ خراب سے بچنا
جس کے پہلو میں لاکھ کانٹے ہوں
ایسے رنگیں گلاب سے بچنا
بے سبب دل نہ ٹوٹ جائیں کہیں
دل لگی میں حساب سے بچنا
پڑھتے رہنا کتب زیست مگر
بے وفائی کے باب سے بچنا
آگہی خود عذاب ہے لیکن
بے خودی کی شراب سے بچنا
دوستی کی روپ میں دھوکہ ملا
جو تبسم بھی ملا جھوٹا ملا
دوستی کے زخم جس نے کھائے تھے
دشمنی کی لاش پر روتا ملا
جوڑتا تھا قلب جو ٹوٹے ہوئے
وہ خود اپنی ذات میں ٹوٹ ملا
جو خود اپنی ذات میں اک بزم تھا
وہ مجھے جب بھی ملا تنہا ملا
جاگتا تھا جو کسی کے واسطے
وہ بھی آخر ایک دن سوتا ملا
زندگانی اس طرح بدلی کہ بس
ہر کوئی آفت زدہ سہما ملا
بجھ رہا تھا جب چراغ زندگی
ایک احساس زیاں جلتا ملا
کس سے بولیں کس سے حال دل کہیں
ہر کوئی اپنا ہی گرویدہ ملا
شہر کیا ہے ایک بزم کار زار
ہر کوئی حالات سے لڑتا ملا
میں بھول جاؤں جسے یہ وہ حادثہ بھی نہیں
وہ آج ایسے ملا جیسے جانتا بھی نہیں
حسین اس سے جہاں میں کوئی سوا بھی نہیں
یہ اور بات ہے کہ میں اس کو چاہتا بھی نہیں
مرے خیال کی دہلیز پر وہ آ بیٹھا
اب اس سے بچ کے گزرنے کا راستہ
زہے نصیب وہ ناراض ہو گئے ہم سے
یہ اور بات ہے کہ اپنی کوئی خطا بھی نہیں
کسے خبر تھی کہ سورج بھی ڈوب جائیگا
اس اک مکان سے جس میں کوئی دیا بھی نہیں
سجائے رکھتا ہے اشکوں کے دیپ پلکوں پر
عجیب شخص ہے کچھ منہ سے بولتا بھی نہیں
ہماری سمت سبھی راستے سمٹ آئے
تمہری سمت ابھی یہ قدم اٹھا بھی نہیں
کسی کی رات ہے روشن چراغ کے مانند
کسی مکان میں بجھتا ہوا دیا بھی نہیں
گناہگار نگاہوں نے یہ بھی دیکھا ہے
گناہگار ہوا جس نے کچھ کیا بھی نہیں
لو ہم نے زیست بھی کر دی اسی کے نام سروش
جو ہم کو پیار سے ایک باردیکھتا بھی نہیں
یہ مرے ساتھ کیا کیا تم نے
مجھ کو بدنام کر دیا تم نے
دو گھڑی بات چیت کیا کر لی
شہرہ عام کر دیا تم نے
ہائے نادان راز دل کہ کر
طشت از بام کر دیا تم نے
دل چرایا چرا کے چپکے سے
مجھ پہ الزام دھر دیا تم نے
چشم و ابرو کے اک اشارے سے
جو نہ کہنا تھا کہ دیا تم نے
دل دھڑکنے لگا ہے سینے میں
کیا مرا نام پھر لیا تم نے
آنکھوں میں سمندر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
طوفان سر منظر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
ساقی کی نگاہوں میں ہم آے تو ہاتھوں میں
ٹوٹ ہوا ساغر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
محفل ہے کھربوں کی اور زد پہ نگاہوں کی
اک کانچ کا پیکر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
ایک مست قلندر ہے اور شہر ستمگر ہے
ہر ہاتھ میں پتھر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
رنگوں کی بہاروں میں پھولوں کی قطاروں میں
تنہا دل مضطر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
رخت سفر اٹھاؤ ہوتا ہے چل چلاؤ
نقارہ بج رہا ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
نہ جانے کون آنکھوں میں بسا ہے
نظر میں ہر طرف میلہ لگا ہے
جسے دیکھو مجھی پر ہیں نگاہیں
مرے چہرے پہ آخر کیا لکھا ہے
نہ پوچھو کوئی میرے دل کی حالت
بس اتنا جان لو ٹوٹا ہوا ہے
نہ جانے کیوں نگاہیں پھیر بیٹھا
وہ جس نے پیار تو مجھ سے کیا ہے
ہمیشہ معتبر سمجھا تھا جس کو
وہ آج مجھ کو دھوکہ دے گیا ہے
جسے نشہ تھا ہر دم جیتنے کا
وہ ناکامی کے صدمے سے مرا ہے
اسے اک روز دنیا جانتی تھی
جو تنہائی کے صدمے مرا ہے
فنا کر دیں گے وہ کہتے ہیں ہم کو
ہمارے نام سے جن کی بقا ہے
پلٹ کر پھر نہیں دیکھا کسی نے
ہمارے پاس سے جو اٹھ گیا ہے
نظر میں آگئی ہے میری منزل
قدم رہ رہ کے مجھ کو روکتا ہے
مجھے تو ایک دنیا جانتی ہے
بتا تجھ کو کوئی پہچانتا ہے ؟
ہو سکے تو مجھے بھلا دینا
اپنی ہر یاد کو مٹا دینا
میں ادھورا سا خواب ہوں جانم
بے تبسم گلاب ہوں جانم
میں بہت دور کی صدا جیسے
ایک بے وجہ سی دعا جیسے
ہے بجا میں نے محبت کی تھی
تجھ کو پانے کی جسارت کی تھی
میں نے چاہا تھا تجھے میرے صنم
میں تیرے ساتھ چلا تھا ہمدم
اب وہ انداز محبت ہی نہیں
تجھ کو پانے کی جسارت ہی نہیں
میں ترے ساتھ نہیں چل سکتا
آتش غم میں نہیں جل سکتا
ہو سکے تو مجھے بھلا دینا
میری ہر یاد کو مٹا دینا
تجھ کو چاہا ہے مری جان نہ جانے کب سے
تجھ کو مانگا ہے مری جان خدا سے رب سے
تیری یادوں میں کتنے سال بتائے میں نے
تاج کتنے ہی خیالوں میں بنائے میں نے
میں نے احساس دلایا تھا تجھے میرے صنم
ساتھ چلتا ہے میری راہ میں میرا ہمدم
تو میرے ساتھ اسے کیسے دیکھ پائے گی
تیرے دل میں وہ میرے ساتھ کیسے سمائے گی
یاد کر تونے کہا تھا مجھے انکار نہیں
ساتھ اس کا تو میری راہ میں دیوار نہیں
تو نے چاہا ہے اسے وہ ہے محبت تیری
اور تو ،تو تو میری جان ہے چاہت میری
میں تجھے پیار کرونگی سدا ایسے ہی صنم
میں ترے ساتھ چلونگی سدا ایسے ہی صنم
اپنے بارے میں ہر اک راز بتایا میں نے
اپنی تصویر کو ہر رخ سے دکھایا میں نے
اور پھر تو میری ہمدم، مری ہمراز بنی
ساز تھا میں تو میری جان تو آواز بنی
ہم کے چل نکلے تھے الفت کی حسین راہوں میں
چین ملتا تھا تجھے آکے میری بانہوں میں
میں تو وہ ہوں کہ خموشی کو زبانیں دے دوں
اور اگر چھاؤں تو لمحوں کو زمانے دے دوں
میں اندھیروں میں بھی سورج کا تصور کھینچوں
میں تھپیڑوں میں بھی ساحل کی ہوائیں سو چوں
وہ تری بات وہ الفاظ میں بھولا تو نہیں
وہ ترے پیار کا انداز میں بھولا تو نہیں
تو نے جو کچھ کہا تھا اس کا خلاصہ یوں ہے
،میں ترے ساتھ ہوں ہر آن،، پریشان کیوں ہے،،
تو نے تو پیار نبھانے کی قسم کھائی تھی
اپنی باہوں میں چھپانے کی قسم کھائی تھی
مجھ کو بتلا جو میری جان خطا ہے میری
جس کی پاداش میں یہ سخت سزا ہے میری
کیوں بھلا مجھ سے تو اس درجہ پرے جاتی ہے
کیا سبب ہے جو محبت سے ڈرے جاتی ہے
کیا میرا دل تھا کھلونا کہ جو کھیلا تو نے
کھیل کے توڑ دیا توڑ کے پھینکا تو نے
گر اسے پیار تو کہتی ہے تو نفرت کیا ہے ؟
گر اسے ساتھ تو کہتی ہے تو فرقت کیا ہے ؟