مجھے خلا میں بھٹکنے کی آرزو ھی سہی
کہ تو ملے نہ ملے تیری جستجو ھی سہی
قریب آ شب تنھائی تجھ سے پیار کریں
تمام دن کی تھکن کا علاج تو ھی سہی
بڑے خلوص سے ملتا ھے جب بھی ملتا ھے
وہ بے وفا تو نھیں ھے،بہانہ جو ھی سہی
مگر وہ ابر سمندر پہ کیوں برستا ھے؟
زمین بانجھ سہی،خاک بے نمو ھی سہی
تم اپنے داغ سر پیرہن کی بات کرو
ھمارا دامن صد چاک بے رفو ھی سہی
یہ ناز کم تو نھیں کہ ان سے مل آئے
وہ ایک پل کو سر راہ گفتگو ھی سہی
جو اپنے آپ سے شرمائے کس سے بات کرے؟
میں آئینے کی طرح اس کے روبرو ھی سہی
کسی طرح تو یہ تنھائیوں کی شام کٹے
وصال یار نھیں،قربت عدو ھی سہی
یہ سجدہ سر مقتل کا وقت ھے"محسن"
خود اپنے خون رگ جاں سے اب وضو ھی سہی