urdu hai jis ka nam

 

دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلے پہر
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

 (میر)

لطف مے تجھ سے کیا کہوں واعظ

ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

 

ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

اُترنے ہی نہیں دیتی مجھ پر کوئی آفت
میری ماں کی دعاؤں نے آسماں کو روک رکھا ہے

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا

(مومن خاں مومن

 تو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

(داغ)

ان کو بھی ہو خبر یہ ضروری تو نہیں
جن کی خاطر اپنی ہستی تک مٹا دی ہم نے

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتا اُسکا
بھلی سی شکل تھی ، اچھا سا نام تھا اس کا

پھر اک سائہ در و بام پر اتر آیا
دل و نگاہ میں پھر ذکر چھڑ گیا اُس کا

 

Make a Free Website with Yola.