urdu hai jis ka nam

میں اپنی ذات کا کبھی اظہار نہیں کرتی

شاید میں خود سے بھی پیار نہیں کرتی


کیا کھویا کیا پایا چھوڑو اب اس کو

میں تقدیر سے کبھی تکرار نہیں کرتی

دنیا کی عدالت میں خاموش رھتی ھوں

میں لفظوں سے کسی کو سنگسار نہیں کرتی

اپنے جذبوں کو چھپا رکھا ھے تہہ دل میں

میں اپنے جذبوں کا بیوپار نہیں کرتی


ھاتھوں کی لکیروں میں کیا لکھا سوچا نہیں

میں اب ان باتوں پر اعتبار نہیں کرتی


زندگی کا سفر گزر رھا ھے دھیرے دھیرے

میں دن مہینوں کا شمار نہیں کرتی


نہ دنیا سے شکوہ نہ کسی سے شکایت ھے

میں کسی سے بھی گلہ سرکار نہیں کرتی

یا رب غمِ ہجراں میں‌ اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا

اک عشق کا غم آفت اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

ناکامِ تمنا دل اس سوچ میں‌رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سناتم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
 

تیرے خیال سے لَو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کِس خیال میں ہے اے منزلوں کے شَیدائی
اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی
پُکار اے جَرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سَودائی
راہِ حیات میں کُچھ مرحلے تو دیکھ لئے
یہ اور بات تیری آرزو  نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی مُحبت میں بارہا گزرا
کہ اُس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
پھر اُس کی یاد میں دِل بیقرار ہے ناصر
بِچھڑ کے جِس سے ہوئی شہر شہر رُسوائی


چراغ حسن حسرت

دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
کون ہوتا ہے کسی کا شبِ تنہائی میں
غمِ فرقت ہی غمِ عشق کو بہلائے گا
چاند کے پہلو میں دم سادھ کے روتی ہے کرن
آج تاروں فُسوں خاک نظر آئے گا
راکھ میں آگ بھی ہے غمِ محرومی کی
راکھ ہو کر بھی یہ شعلہ ہمیں سلگائے گا
وقت خاموش ہے رُوٹھے ہوئے یاروں کی طرح
کون لو دیتے ہوئے زخموں کو سہلائے گا
دھوپ کو دیکھ کے اس جسم پہ پڑتی ہے چمک
چھاؤں دیکھیں گے تو اس زلف کا دھیان آئے گا
زندگی چل کہ زرا موت کا دم خم دیکھیں
ورنہ یہ جذبہ لحد تک ہمیں لے جائے گا 

Make a Free Website with Yola.