urdu hai jis ka nam

نا  گوری ہوں نا سجنی ہوں

نا روپ سروپ کی دیوی ہوں

پر تیرے لفظوں کی نرمی سے

جذبوں کو گرمی دیتی ہوں

اے کاش کہ تم بھی دیکھ سکو

اے میرے پیارے انشاء جی


 انشا جی کیوں عاشق ہو کر درد کے ہاتھوں شور کرو
دل کو اور دلاسا دے لو من کو میاں کٹھور کرو
آج ہمیں اس دل کی حکایت دور تلک لے جانی ہے
شاخ پہ گل ہے باغ میں بلبل جی میں مگر ویرانی ہے
عشق ہے روگ کہا تھا ہم نے آپ نے لیکن مانا بھی
عشق میں جی سے جاتے دیکھے انشا جیسے دانا بھی
ہم جس کے لیے ہر دیس پھرے جوگی کا بدل کر بھیس
بس دل کا بھرم رہ جائے گا یہ درد تو اچھا کیا ہوگا

 انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا
اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا
شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا
پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کیا

 کچھ لوگ کہ اودے ،نیلے پیلے ، کالے ہیں
دھرتی پہ دھنک کے رنگ بکھیرنے والے ہیں
کچھ رنگ چرا کے لائیں گے یہ بادل سے
کچھ چوڑیوں سے کچھ مہندی سے کچھ کاجل سے
کچھ رنگ بسنت کے رنگ ہیں رنگ پتنگں کے
کچھ رنگ ہیں جو سردار ہیں سارے رنکوں میں
کچھ یورپ سے کچھ پچھم سے کچھ دکھن سے
کچھ اتر کے اس اونچے کوہ کے دامن سے
اک گہرا رنگ ہے اکھڑ مست جوانی کا
اک ہلکا رنگ ہے بچپن کی نادانی کا
کچھ رنگ ہیں جیسے پھول کھلے ہوں پھاگن کے
کچھ رنگ ہیں جیسے جھپنٹے بھادوں ساوں کے
اک رنگ ہے برکھارت میں کھلتے سیئسو کا
اک رنگ ہے بر ہات میں ٹپکے آ نسو کا
یہ رنگ ملاپ کے رنگ یہ رنگ جدائی کے
کچھ رنگ ہیں ان میں وحشت کے تنہائی کے
ان خون جگر کا رنگ ہے گلگوں پیارا بھی
اک دن رنگ ہمارا بھی ہے تمہارا بھی

 ان نینوں میں پیت بھری ہے ان کی انوکھی ریت
کھوٹے کا کبھی کھوٹ نہ دیکھیں دیکھیں پیت ہی پیت
کاگوں کو ابھی نوچ کھلاؤں پاؤں جو بگڑے طور
یہ نیناں کچھ ا ور جو دیکھیں پیت بنا کچھ ا ور
پیاروں کی جہاں سنگیت دیکھے جم کر رہے نگاہ
تم من کو مرے صحبت انکی کعبے کی درگاہ
دن بھر دیکھیں سیر نہ ہو ویں پیت کو ان کی پیاس
پیت جو پائیں تب کہیں آئیں لو ٹ کے میرے پاس
تیغیں پیت کے دن میں ہاریں نینوں کی وہاں جیت
کس کس کا دکھ درد اپنائیں ان کی انوکھی ریت


میرے گھر سے تو سر شام ہوئے ہو رخصت
میرے خلوت کدئہ دل سے نہ جانا ہوگا
ہجر میں ا ور تو سب موت کے ساماں ہوں گے
اک یہی یاد بہلنے کا بہانا ہوگا
تم تو جانے کو ہو اس شہر کو ویراں کر کے
اب کہاں اس دل و حشی کا ٹھکانا ہوگا
بھیگی راتوں میں فقط درد کے جگنو پکڑیں
سونی راتوں میں کبھی یاد کے تارے چو میں
خواب ہی خواب میں سینے سے لگائیں تجھ کو
تیرے گیسو ہی کبھی درد کے مارے چومیں
اپنے زانو پہ ترا سر ہی کوئی دم رکھ لیں
اپنے ہونٹوں سے ترے ہونٹ بھی پیارے چومیں

اس شام وہ رخصت کا سماں یار رہے گا

وہ شہر ، وہ کوچہ ، وہ مکاں یاد رہے گا

وہ ٹیس کے ابھری تھی اِدھر یاد رہے گی

وہ درد کے اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں

وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

ہاں بزم شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن

ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے

اک درد کا تھا جن میں بیاں‌یاد رہے گا

جاں بخش سی اک برگ گل تر کی تراوت

وہ لمس عزیزِ دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

تو یاد رہے گا، ہمیں ہاں‌یاد رہے گا



‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا
اک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانا

اس نار میں ایسا روپ نہ تھا، جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں، ہوا آپ ہی آپ سے بیگانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا

نا چنچل کھیل جوانی کے، نا پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا، یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اک زور بپھرتے ساگر میں، نا کشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا

اک روز مگر برکھا رت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیئے، یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ،،،، جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا

ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسا کرنے میں کچھ سود نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی “مجبوری ساجن مجبوری“
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا، اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا

گو آگ سے چاتھی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا، چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
‘کچھ اور کہو تو سنتا ہوں، اس باب میں کچھ مت فرمانا‘
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا

اب آگے کی تحقیق نہیں، گو سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں، اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اس کو بلوایا، کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات یہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی، کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا

ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہےکیا،اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے،یہ اپنی کتھا ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی، کس کام کا ایسا پچھتانا؟؟
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانا
 

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا
اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا
کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا
بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا
ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا
دو اشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے
الطاف کی بارش تیری اکرام کا دریا تیرا
اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی ، ہم کو سہی سودا تیرا
ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگُزر
رستہ کبھی روکا تیرا دامن کبھی تھاما تیرا
ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ  ہوا کیا کیا تیرا
بے درد، سُننی  ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رُسوا تیرا، شاعر تیرا، اِنشا تیرا
*********************

ہم گُھوم چکے بَستی بَن میں

اِک آس کی پھانس لیے مَن میں

کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو

کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو

جب جیون رات اندھیری ہو

اِک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں

جب پھاگن پُول کِھلائے ہوں

جب چندا رُوپ لُٹا تا ہو

جب سُورج دُھوپ نہا تا ہو

یا شام نے بستی گھیری ہو

اِک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے

کیوں گوری کا دل مَیلا ہے

ہم کب تک پیت کے دھوکے میں

تم کب تک دُور جھروکے میں

کب دید سے دل کو سیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سُود خسارے کا

یہ کاج نہیں بنجارے کا

سب سونا رُوپ لے جائے

سب دُنیا، دُنیا لے جائے

تم ایک مجھے بہتیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

 

حال دل جس نے سنا گریہ کیا
ہم نہ روئے ہا ں ترا کہنا کیا
یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے
تم نے جب وعدہ کیا ایفا کیا
پھر کسی جان وفا کی یاد نے
اشک بے مقدور کو دریا کیا
تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے
ابر رسا اک رات بھر برسا کیا
دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی
کام ساون کا کیا اچھا کیا
آپ کے الطاف کا چرچا کیا
ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا

پہلا سجدہ

وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی
پھر آج آباد ہوتی جارہی ہے
جہا ں سے کاروان شوق گزرے
نہ جانے کتنی مدت ہوگئی ہے
پلا تھا صحبت اہل حرم میں
میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا
بنی لیکن خدا سے نہ بتوں سے
میں دونوں آستانوں سے خفا تھا
مگر کچھ ا ور ہی عالم ہے اب تو
میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں
مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت
مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں
کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو
ا ضافی قیمتوں سے ماور ا ہوں
میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں
 

بستی میں‌دیوانے آئے
چھب اپنی دکھلانے آئے
دیکھ ترے درشن کے لو بھی
کرکے لاکھ بہانے آئے
پیت کی ریت نبھانی مشکل
پیت کی ریت نبھانے آئے
اٹھ اور کھول جھروکا گوری
سب اپنے بیگانے آئے
پیر، پروہت، ملا، مکھیا
بستی کے سب سیانے آئے
طعنے، مہنے، اینٹیں، پاتھر
ساتھ لئے نذرانے آئے
سب تجھ کو سمجھانے والے
آج انہیں‌سمجھانے آئے
اب لوگوں سے کیسی چوری؟
اٹھ اور کھول جھروکا گوری
درشن کی برکھا برسا دے
ان پیاسوں کی پیاس بجھا دے
اور کسی کے دوار نہ جاویں
یہ جو انشا جی کہلاویں
تجھ کو کھو کر دنیا کھوئے
ہم سے پوچھو کتنا روئے
جگ کے ہوں‌دھتکارے ساجن
تیرے تو ہیں‌پیارے ساجن
گوری روکے لاکھ زمانا
ان کو آنکھوں‌میں‌بٹھلانا

بجھتی جوگ جگانے والے

اینٹیں‌پاتھر کھانے والے
اپنے نام کو رسوا کرکے
تیرا نام چھپانے والے
سب کچھ بوجھے، سب کچھ جانے
انجانے بن جانے والے
تجھ سے جی کی بات کریں‌کیا
اپنے سے شرمانے والے
کرکے لاکھ بہانے آئے
جوگی الکھ جگانے والے

دیکھ نہ ٹوٹے پیت کی ڈوری

اٹھ اور کھول جھروکا گوری

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
ہیں لاکھوں روگ زمانے میں ، کیوں عشق ہے رسوا بیچارا
ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی ، انسان کو رکھتیں دکھیارا
ہاں بے کل بےکل رہتا ہے ، ہو پیت میں جس نے جی ہارا
پر شام سے لے کر صبح تلک یوں کون پھرے گا آوارہ
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
یہ بات عجیب سناتے ہو ، وہ دنیا سے بے آس ہوئے
اک نام سنا اور غش کھایا ، اک ذکر پہ آپ اداس ہوئے
وہ علم میں افلاطون سنے، وہ شعر میں تلسی داس ہوئے
وہ تیس برس کے ہوتے ہیں ، وہ بی-اے،ایم-اے پاس ہوئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
گر عشق کیا ہے تب کیا ہے، کیوں شاد نہیں آباد نہیں
جو جان لیے بن ٹل نہ سکے ، یہ ایسی بھی افتاد نہیں
یہ بات تو تم بھی مانو گے، وہ قیس نہیں فرہاد نہیں
کیا ہجر کا دارو مشکل ہے؟ کیا وصل کے نسخے یاد نہیں؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی اس گھر میں تھے مہمان گئے
پر اس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے، انجان گئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
جو ہم سے کہو ہم کرتے ہیں، کیا انشا کو سمجھانا ہے؟
اس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے ، گو اب کچھ اور زمانہ ہے
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں ، یہ عشق ہے یا افسانہ ہے؟
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے، یہ کیسا تانا بانا ہے ؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں

**************************************

سب مایا ہے

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے
ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے
معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے
کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو
جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے
سب مایا ہے
جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے
سب مایا ہے
وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے
سب مایا ہے
جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے
سب مایا ہے
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے

ا نشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا باسور ہوئے
بستی بستی آگ لگتی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
ا ب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
ا ے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دوا گر بجھتا ہے ا لاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا اک را گ ہے ،سمے سمے کا ا پنا بھاؤ
آس کی ا جڑی پھلوا ری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے ا ندھیارے میں کافوری شمعیں نہ جلاؤ 

انشا جی ہا ں تمہیں بھی دیکھا درشن چھوٹے نام بہت
چوک میں چھوٹا مال سجا کر لے لیتے ہو دام بہت
یوں تو ہمارے درد میں گھائل صنح بہ ہوشام بہت
اک دن ساتھ ہمارا دو گے اس میں ہمیں کلام بہت
باتیں جن کی گرم بہت ہیں کام انہی کے خام بہت
کافی کی ہر گھونٹ پہ دو ہا کہنے میں آرام بہت
دنیا کی اوقات کہی ،کچھ اپنی بھی اوقات کہو
کب تک چاک دہن کوسی کر گونگی بہری بات کہو
داغ جگر کو لالہ رنگیں اشکوں کو برسات کہو
سورج کو سورج نہ پکارو دن کو اندھی رات کہو

عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
کہاں ڈوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
ستارے صبح خنداں کے ستارے
بھلا ا تنی بھی جلدی کیا ہے پیارے
کبھی پوچھا بھی تو نے ۔۔۔کس کو چاہیں
لے پھرتے ہیں ویراں سی نگاہیں
ہماری جاں پہ کیوں ہیں صدمے بھاری
نفس کا سوز ، دل کی بے قراری
خبر بھی ہے ہمارا حال کیا ہے
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
حکایت ہے ابھی پچھلے دنوں کی
کوئی لڑکی تھی ننھی کا منی سی
گلے زیبا قبائے ، نو بہارے
سیہ آنچل میں اوشا کے ستارے
بہت صبحوں کی باتیں تھیں انیلی
بہت یادوں کی باتیں تھی ا نیلی
کبھی سامان تھے دل کے توڑنیکے
کبھی پیمان تھے پھر سے جوڑنے کے
عجب تھا طنز کرنے کا بہانا
نہ تم انشا جی ہم کو بھول جانا
بہت خوش تھے کے خو ش رہنے کے دن تھے
بہر ساعت غزل کہنے کے دن تھے
زمانے نے نیا رخ یوں دیا
اسے ہم سے ہمیں اس سے چھڑایا
پلٹ کر بھی نہ دیکھا پھر کسی نے
اسی عالم میں گزرے دو مہینے
کگر ہم کیسی رو میں بہ چلے ہیں
نہ کہنے کی ہیں باتیں کہہ چلے ہیں
ستارے صبح روشن کے ستارے
تجھے کیا ہم اگر روتے ہیں پیارے
ہمارے غم ہمارے غم رہیں گے
ہم اپنا حال تجھ سے نہ کہیں گے
گزر بھی جا کہ یاں کھٹکا ہوا ہے
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

 

Make a Free Website with Yola.