یادوں کی صورت خود کو دہراتے ہیں
گزرے لمحے اکثر لوٹ کے آتے ہیں
اکثر میری تنہائی کی جھیلوں میں
بھولے بھٹکے کچھ پنچھی آجاتے ہیں
جن کو دیکھ کر نیندیں تک اڑ جاتی ہیں
آپ ہمیشہ ایسے خواب دکھاتے ہیں
پتواروں کی عجلت دیکھنے والی ہے
ساحل پہ کچھ آنچل سے لہراتے ہیں
میری نادانی کا عالم مت پوچھو
اب تو مجھ کو بچے بھی سمجھاتے ہیں
جب سے اس نے ذہنی توازن کھویا ہے
شہر کے دانشور اس سے گھبراتے ہیں
دھوپ کو اس منظر سے وحشت ہوتی ہے
جب سائے دیواروں سے ٹکراتے ہیں
پتہ ٹوٹے ،ہوا چلے ،یا دل دھڑکے
شاد ،ہر اک آہٹ پر ہم رک جاتے ہیں
روز اک منظر شب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبوری حالت بھی ہوتی ہوگی
ورنہ کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے ؟
پہلے تو توڑ دیا میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے
زد پہ آجائیں تو وحشت کا بھروسہ کیا ہے
کبھی صحراؤں میں سیلاب طلب کرتی ہے
اب اسے میں کیسے سمجھاؤں مری سادہ دلی
آج کے دور میں احباب طلب کرتی ہے
شاد ،اب اتنے مناظر کہاں سے لاؤں
زندگی روز نئے خواب طلب کرتی ہے