urdu hai jis ka nam

یادوں کی صورت خود کو دہراتے ہیں
گزرے لمحے اکثر لوٹ کے آتے ہیں
اکثر میری تنہائی کی جھیلوں میں
بھولے بھٹکے کچھ پنچھی آجاتے ہیں
جن کو دیکھ کر نیندیں تک اڑ جاتی ہیں
آپ ہمیشہ ایسے خواب دکھاتے ہیں
پتواروں کی عجلت دیکھنے والی ہے
ساحل پہ کچھ آنچل سے لہراتے ہیں
میری نادانی کا عالم مت پوچھو
اب تو مجھ کو بچے بھی سمجھاتے ہیں
جب سے اس نے ذہنی توازن کھویا ہے
شہر کے دانشور اس سے گھبراتے ہیں
دھوپ کو اس منظر سے وحشت ہوتی ہے
جب سائے دیواروں سے ٹکراتے ہیں
پتہ ٹوٹے ،ہوا چلے ،یا دل دھڑکے
شاد ،ہر اک آہٹ پر ہم رک جاتے ہیں
 

روز اک منظر شب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبوری حالت بھی ہوتی ہوگی
ورنہ کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے ؟
پہلے تو توڑ دیا میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے
زد پہ آجائیں تو وحشت کا بھروسہ کیا ہے
کبھی صحراؤں میں سیلاب طلب کرتی ہے
اب اسے میں کیسے سمجھاؤں مری سادہ دلی
آج کے دور میں احباب طلب کرتی ہے
شاد ،اب اتنے مناظر کہاں سے لاؤں
زندگی روز نئے خواب طلب کرتی ہے
 

ابھی تو آنسوؤں سے دھو رہا ہوں میں گناہوں کو
نمازوں تک نہیں پہنچا ابھی تک میں وضو میں ہوں

میں ہوں ایسا مصور تشنگی جس پر مسلط ہے
جہاں صحرا بناتا ہوں وہاں دریا بنا تا ہوں

کوئی نہیں تھا اپنے مقابل بھی میں ہی تھا

شائد کہ اپنی راہ میں حائل بھی میں ہی تھا

اپنے ہی گرد میں نے کیا عمر بھر سفر

بھٹکایا جس نے مجھ کو وہ منزل بھی میں ہی تھا

ابھرا ہوں جس سے بارہا مجھ میں تھے سب بھنور

ڈوبا جہاں پہنچ کے وہ ساحل بھی میں ہی تھا

آساں نہیں تھا سازشیں کرنا میرے  خلاف

جب اپنی آرزؤں کا قاتل بھی میں ہی تھا

شب بھر ہر اک خیال مخاطب مجھی سے تھا

تنہایوں میں رونق محفل بھی میں ہی تھا

دنیا سے بے نیازی بھی فطرت میری ہیتھی

دنیا کے رنج و درد میں شامل بھی میں ہی تھا

مجھ کو سمجھ نہ پائی کبھی میری زندگی

آسانیاں مجھی سے تھیں ،مشکل بھی میں ہی تھا

مجھ میں تھا خیر و شر کا عجب امتزاج شاد

میں خود ہی حق پرست تھا باطل بھی میں ہی تھا

 

 

 

 

منزل کی کشش ،لطف  سفر اپنی جگہ ہے

اور راہ میں لٹ جانے کا دار اپنی جگہ ہے

پردیس تو پردیس ہے ،گھر اپنی جگہ ہے

شب لاکھ منور ہو ،سحر اپنی جگہ ہے

ایسا نہیں احساس سے عاری ہوں سبھی دل

مجبوری حالات مگر اپنی جگہ ہے

فردا کے حسن رنگ محل خوب ہیں لیکن

ماضی کا وہ بوسیدہ کھنڈر اپنی جگہ ہے

ہر سمت فضاوں میں جہاں زہر گھلا ہو

اس دور میں جینے کا ہنر اپنی جگہ ہے

پتے تو سبھی نظر خواں ہو چکے کب کے

لیکن وہ بوڑھا شجر اپنی جگہ ہے


مچل اٹھتی ہیں شاخیں اور شگوفے رقص کرتے ہیں

ہوا جب گد گداتی ہے تو پتے رقص کرتے ہیں

جہاں یک رنگ ہو جائیں خودی اور بے خودی دونوں

انہیں سرشار لمحوں میں فرشتے رقص کرتے ہیں

ابھی صحراؤں کی وحشت کا اندازہ نہیں تم کو

انہیں  اسوقت دیکھو جب بگولے رقص کرتے  ہیں

یہ منظر تم نے بھی شائد کبھی دیکھا ہو  کشتی سے

ٹھہر جاتی  ہیں موجیں اور کنارے رقص کرتے ہیں

چراغوں کی لویں یوں ٹھٹھراتی ہیں اندھیروں میں

کہ جیسے شب کے آنگن میں اجالے رقص کرتے ہیں

مہذب دور ہے لیکن یہ منظر عام ہے اب  بھی

کہ بسمل جب تڑپتا ہے قبیلے رقص کرتے ہیں

میں جب تک ہوں میری یہ آرزوئیں بجھ نہیں سکتیں

مجھے جلنا ہے جب تک یہ شرارے رقص کرتے ہیں

جواز اس کا کوئی اے شاد کیا سمجھائے گا مجھ کو

کہ میں گردش میں ہوں جب ستارے رقص کرتے ہیں


Make a Free Website with Yola.