اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرےکون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرےدل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کاوہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرےاپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میںروز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرےاتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگےواقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرےسلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھیروشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرےسوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تووہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرےجب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلافقاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرےاس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجودمیرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرےمیرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئیکیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئیایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میںزندگی کا یقیں کس کو تھا ، بس یہ کہیے ، دوا لگ گئیجُھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا ، سنگ اُٹھائے ہُوئےآئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خُدا لگ گئیجنگلوں کے سفر میں توآسیب سے بچ گئی تھی ، مگرشہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئینیم تاریک تنہائی میں سُرخ پُھولوں کا بن کِھل اُٹھاہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئیوہ جو پہلے گئے تھے ، ہمیں اُن کی فرقت ہی کچھ کم نہ تھیجان ! کیا تجھ کو بھی شہرِ نا مہرباں کی ہوا لگ گئیدو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اُٹھانے لگیمیرے دل کو بھی شاید ترے حوصلوں کی ادا لگ گئیمیز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر ،درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئیاب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے |
کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی |
گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہوکوئی وجود محبّت کا استعارہ ہومیں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوںجزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہوکبھی کبھار اُسے دیکھ لیں ،کہیں مل لیںیہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہوقصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائےمحبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہویہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گاکہیں ہوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہواُفق تو کیا ہے،درِ کہکشاں بھی چُھو آئیںمُسافروں کو اگر چاند کا اشارہ ہومیں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوںکوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہواگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہےمیں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہووہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھاپلک جھپکتے ، ہَوا میں لکیر ایسا تھااسے تو دوست ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ بھی تھےخطا نہ ہوتا کسی طور ، تیر ایسا تھاپیام دینے کا موسم نہ ہم نوا پاکرپلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھاکسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میںمجھے وہ توڑ ہی لیتا، شریر ایسا تھاہنسی کے رنگ بہت مہربان تھے لیکناُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھاترا کمال کہ پاؤں میں بیڑیاں ڈالیںغزالِ شوق کہاں کا اسیر ایسا تھا!منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہوںحیرت سے پلک جھپک رہی ہوںیہ تُو ہے کہ میرا واہمہ ہے!بند آنکھوں سے تجھ کو تک رہی ہوںجیسے کہ کبھی نہ تھا تعارفیوں ملتے ہوئے جھجک رہی ہوںپہچان! میں تیری روشنی ہوںاور تیری پلک پلک رہی ہوںکیا چَین ملا ہے………سر جو اُس کےشانوں پہ رکھے سِسک رہی ہوںپتّھر پہ کھلی ، پہ چشمِ گُل میںکانٹے کی طرح کھٹک رہی ہوںجگنو کہیں تھک کے گرِ چُکا ہےجنگل میں کہاں بھٹک رہی ہوںگڑیا مری سوچ کی چھنی کیابچّی کی طرح بِلک رہی ہوںاِک عمر ہُوئی ہے خُود سے لڑتےاندر سے تمام تھک رہی ہوںرس پھر سے جڑوں میں جا رہا ہےمیں شاخ پہ کب سےپک رہی ہوںتخلیقِ جمالِ فن کا لمحہ!کلیوں کی طرح چٹک رہی ہوںدل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترےوہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترےکہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترےزمانہ بیت گیا ان کی آب و تاب اُترےمیں اُس سے کُھل کے ملوں ،سوچ کا حجاب اُترےوہ چاہتا ہے مری رُوح کا نقاب اُترےاُداس شب میں ،کڑی دوپہر کے لمحوں میںکوئی چراغ ، کوئی صُورتِ گلاب اُترےکبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈکسماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترےفصیلِ شہرِ تمنا کی زرد بیلوں پرتراجمال کبھی صُورت سحاب اُترےتری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھینوید ہو کہ بدن سے پُرانے خواب اُترےسپردگی کا مجسم سوال بن کے کِھلوںمثالِ قطرۂ شبنم ترا جواب اُترےتری طرح ، مری آنکھیں بھی معتبر نہ رہیںسفر سے قبل ہی رستوں میں وہ سراب اُترےرقص میں رات ہے بدن کی طرحبارشوں کی ہوا میں بن کی طرحچاند بھی میری کروٹوں کا گواہمیرے بستر کی ہر شکن کی طرحچاک ہے دامن قبائےِ بہارمیرے خوابوں کے پیرہن کی طرحزندگی، تجھ سے دور رہ کر، میںکاٹ لوں گی جلا وطن کی طرحمجھ کو تسلیم، میرے چاند کہ میںتیرے ہمراہ ہوں گہن کی طرحبار ہا تیرا انتظار کیااپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرحنم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھکیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھروٹھنے اور منانے کی حدیں ملنے لگیںچشم پوشی کے سلیقے تھے، شکایات کے ساتھتجھ کو کھو کر بھی رہوں، خلوتِ جاں میں تیریجیت پائی ہے محبت نے عجب، مات کے ساتھنیند لاتا ہُوا، پھر آنکھ کو دُکھ دیتا ہُواتجربے دونوں ہیں وابستہ ہات کے ساتھکبھی تنہائی سے محروم نہ رکھّا مُجھ کودوست ہمدرد ہیں کتنے مری ذات کے ساتھیارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دےزخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دےلہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دےدُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دےرگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دےجو کیفیت بھی جسم کو دے، انتہائی دےشہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دےآنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دےتخیئلِ ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہآنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دےدل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکےتو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دےدُکھ کے سفر میں منزلِ نایافت کُچھ نہ ہوزخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دےمیں عشق کائنات میں زنجیر ہوسکوںمجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دےپہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوںدشتِ بلا میں، رُوح مجھے کربلائی دےگلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو |
- Home
- About us
- Picture gallery
- Online store
- Contact us
- القلم-الشعراء
- متفرقات
- علامہ اقبال
- مرزا غالب
- میر تقی میر
- ابن انشاء
- اسرار-ناروی
- فیض-احمد-فیض
- اکبر الہ آبادی
- اختر سروش
- قتیل شفائی
- داغ دہلوی
- ساحر لدھیانوی
- امجد اسلام امجد
- اسرار الحق مجاز
- جگر مراد آبادی
- خوشبیر سنگھ شاد
- پروین-شاکر
- خمار بارہ بنکوی
- شکیل بدایونی
- احمد فراز
- محسن نقوی
- احمد ندیم قاسمی
- بشیر بدر
- اشعار و قطعات
- اعتبار ساجد
- ناصر کاظمی
- مومن خان مومن
- مصطفیٰ زیدی تیغ الہ آبادی
- فراق گورکھپوری
- عبد الحلیم عدم
- شکیب جلالی
- حبیب جالب
- عدیم ہاشمی
- مصحفی
- وسیم بریلوی
- عالمتاب تشنہ