urdu hai jis ka nam

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مدت ہوئی اک حادثہ ء عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے 

دھڑکنے کی صدا یاد



ميرا جو حال سو ہو برق نظر گرائے جا
ميں يوں نالہ کش رہوں تو يونہي مسکرائے جا
دل کے ہر ايک گوشہ ميں آگ سی اک لگائے جا
مطرب آتشيں نو ہاں اسی دہن ميں گائے جا
لحظہ بہ لحظہ، دم بہ دم، جلوہ بہ جلوہ آئے جا
تشنہ حسن ذات ہوں، تشنہ لبی بڑھائے جا
جتنی بھی آج پی سکوں، عذر نہ کر پلائے جا
مست نظر کا واسطہ نظر بنائےجا
لطف سے ہو کہ قہر سے، ہوگا کبھی تو روبرو
اس کا جہاں پتا چلے ، شور وہيں مچائے جا
عشق کو مطمئن نہ رکھ حسن کے اعتماد پر
وہ تجھے آزما چکا، تواسے آزمائے جا 

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا
زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا


 

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا
ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا
سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا
جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت
ہیں

جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا
اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا
نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا
یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا
سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا
جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

 

تری خوشی سے اگر غم ميں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان ديتے ہيں
پھر ايسی چشم توجہ کوئی ہوئی نہ ہوئی
فسردہ خاطری عشق اے معاذ اللہ
خيال يار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما ديکھا
اذيتوں ميں نہ ہوئی تھی کچھ کمی نہ ہوئی
صبا يہ ان سے ہما را پيام کہہ دينا
گئے ہو جب سے يہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خيال يار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغير کبھی گھر ميں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگر جلوہ گاہ جاناں ميں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی 

کسی صورت نمود سوز پہچانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہيں جاتی
صداقت ہو تو دل سينے سے کھنچنے لگتے ہيں واعظ
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے مانی نہيں جاتی
جلے جاتے ہيں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہيں گر گر کر
حضور شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی
يوں دل سے گزرتے ہيں کہ آہٹ تک نہيں ہوتی
وہ يوں آواز ديتے ہيں کہ پہچانی نہيں جاتی
محبت ميں اک ايسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہيں طغيانی نہيں جاتی
جگر وہ بھی از سر تا پا محبت ہی محبت ہيں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہيں جاتی 

جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کيونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے‘ آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت؟
اپنے ہی جلوے‘ اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ايک مسرت
روح اگر تسکين نہ پائے
کارِ زمانہ جتنا جتنا
بنتا جائے‘ بگڑتا جائے
ضبط محبت، شرطِ محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے
راہِ جنوں آسان ہوئی ہے
زلف و مژہ کے سائے سائے 

ہم کو مٹا سکے، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوۂ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی میری آنکھیں بھی نم نہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ شکوۂ َ دیر و حرم نہیں
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشکبار
اک سانحہ صحیح مگر اتنا بھی اہم نہیں 

Make a Free Website with Yola.