urdu hai jis ka nam

حقیقت ہے یقین کر لو ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
محبت مر چکی اب تو ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
بدلتی رت کی وجہ سے، طبیعت کچھ بوجھل سی ہے
یوں میرا حال مت پوچھو، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
میرے لہجے پہ مت چونکو، میری آنکھوں میں مت جھانکو
یوں حیرت سے نہ دیکھو، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
تمہیں کیا وہم ہے کیوں رات بھر ملنے نہیں آتیں
اے میری نیند کی پریوں، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
بھلا کیوں روز بانہیں وا کیے مجھ سے ملنے آتیں ہیں
تم اسکی یاد سے کہہ ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
اداسی سارے گھر میں پھیلتی جاتی ہے غم بن کر
در دیوار پہ لکھ دو ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

**********

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا
کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بُجھا جاتا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سُونا تھا
میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا
ریل چلی تو ایک مُسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
سچ مُچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا
چاندی کا وہی پُھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کِھلا تھا
جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تہنا تنہا تھا
کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جُدائی کا تھا



اور تو پاس مرے ہجر ميں کيا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو ميں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ھم نے ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں ميں بسارکھے ہيں
شوق کو اور بھي ديوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثير محبت کہ انہيں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ وہ ياديں کہ اس ياد کو ہو کر مجبور
دل مايوس نے مدت سے بہلا رکھا ہے
کيا تامل ہے مرے قتل ميں اے بازوئے يار
اک ھي وار ميں سر تن سے جدا رکھا ہے
حسن کو جور سے بيگانہ نہ سمجھ، کہ اسے
يہ سبق عشق نے پہلے ہي پڑھا رکھا ہے
تيري نسبت سے ستم گر ترے مايوسوں نے
دل حرماں کو بھي سينے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہيں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اسي کا مضطر نے دوا رکھا ہے
نگہ يار سے يکان قضا کا مشتاق
دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
اسے کا انجام بھي کچھ سوچ ليا ہے حسرت
تو نے ربط ان سے جو درجہ بڑھا رکھا ہے

حسرت موہانی
************************
بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں , ,
الٰہی ترکِ اُلفت پر ، وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہم نشیں , کیفیتِ صہبا کے افسانے,
شرابِ بے خودی کے ، مُجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد اُن کی ، مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں ,
حقیقت کُھل گئی حسرت ، ترے ترکِ محبّت کی ,
تُجھے تو اب وہ پہلے سے بھی ، بڑھ کر یاد آتے ہیں
*
چپکے چپکے رات دِن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
با ہزاراں اِضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دِل کا لگانا یاد ہے
بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہِ شوق کا
اور تیرا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بیباک ہو جانا تیرا
اور تیرا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ میرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے تیرا وہ منہ چھپانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حالِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ تیرا چوری چھپے راتوں کا آنا یاد ہے
دوپہر کی دُھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ تیرا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے، تیرا بلانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تُم آ کے ملے تھے جس جگہ
مدّتیں گزریں پر اَب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
باوجود ادعائے اِتقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہَوس کا وہ فسانہ یاد ہے

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے

یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہ محبت کے
وہ خار و خس کے لیے ہے ، یہ نیستاں کے لیے

مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے!

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

ذرا سی بات تھی ، اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے

مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے
 


مشیت کو ہوئی منظور جب تخلیق عورت کی

مشیت کو ہوئی منظور جب تخلیق عورت کی
اشارہ پا کے یوں گویا ہوئی ہر چیز فطرت کی

زمین بولی ،الٰہی اس کو میری عاجزی دینا

فلک بولا اسے میرا مذاقِ سرکشی دینا

کہا سورج نے اس پر روشنی قربان کرتا ہوں
قمر کہنے لگا، میں چاندنی قربان کرتا ہوں

پکاری کہکشاں اس پر، میری بیداریاں صدقے

ثریا نے کہا، میرا بھی تاجِ زرفشاں صدقے

کہا شب نے کہ میں اس کو ستاروں سے جِلا دوں گی
شفق بولی کہ میں رنگیں قبا اس پر لٹا دوں گی

صبا کہنے لگی ، اس میں خرام ناز میرا ہو

کلی بولی چٹک کر، شعلہِ آواز میرا ہو

کہا قوس و قزاح نے چھین لو رنگینیاں میری
کہا خلدِ بریں نے، لُوٹ لو شیرینیاں میری

گھٹاؤں نے کہا، معصوم رقت چاہیے اس میں

ٹرپ کر بجلیاں بولیں، شرارت چاہیے اس میں

بہاروں نے ادب سے عرض کی ، رعنائیاں حاضر
وہیں صبحِ قیامت بول اٹھی ، انگڑائیاں حاضر

سحر بولی میری نور افشانی اسے دینا

کہا شبنم نے میری پاک دامانی اسے دینا

کہا چشموں نے ، بےتابی ہماری بخش دے اس کو
پہاڑوں نے کہا، کچھ استواری بخش دے اس کو

کہا صبح وطن نے ، روحِ عشرت پیش کرتی ہوں

پکاری شام ِ غربت، داغِ حسرت پیش کرتی ہوں

حیاداری صدف نے پیش کی ،گوہر نے تابانی
خلش کانٹوں نے، شوخی لالہ نے، نرگس نے حیرانی

مشیت کے لبوں پر اک تبسم ہو گیا پیدا

اسی ہلکے تبسم سے ، تکلم ہو گیا زیادہ

صدائے کن سے ظاہر ہو گیا، شاہکار فطرت کا
ہزاروں ڈھنگ سے ڈھالا گیا پیکر لطافت کا

خدا نے بزمِ فطرت میں یہ شکل نازنین رکھ دی

تو الفت نے وفورِ شوق مین اپنی جبین رکھ دی

جب اس تصویر کی رخ پر خوشی کی لہر سی دوڑی
عناصر کے جمودِ آہنی میں زندگی دوڑی

ہم آغوشی کو اُٹھیں ،نو بہاریں لالہ زاروں سے
صداۓ دل ربا آنے لگی فطرت کے تاروں سے

 

تری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی
محبت خندۂ بے باک بھی ہے گریہ غم بھی

تھکن تیرے بدن کی عذرکوئی ڈھونڈ ہی لیتی
حدیثِ محفلِ شب کہہ رہی ہے زلفِ برہم بھی

بقدرِ دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے
چراغِ حسن کی لو شوخ بھی ہے اور مدہم بھی

مری تنہائیوں کی دل کشی تیری بلا جانے
مری تنہائیوں سے پیار کرتا ہے ترا غم بھی

بہاروں کے غزلخواں آج یہ محسوس کرتے ہیں
پسِ دیوارِ گل روتی رہی ہے چشمِ شبنم بھی

قریب آتے مگر کچھ فاصلہ بھی درمیاں رہتا
کمی یہ رہ گئی ہے باوجودِ ربطِ باہم بھی

ظہیر ، ان کو ہمارے دل کی ہر شوخی گوارا تھی
انہیں کرنا پڑے گا اب ہمارے دل کا ماتم بھی
ظہیر کاشمیری

اصغر حُسین اصغر گونڈوی)


عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دلِ شورش ادا کی ہے

مستانہ کررہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
کچھ ابتداء کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے

کھِلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے
جنبشِ رگ بہار میں موجِ فنا کی ہے

ہم خستگانِ راہ کو راحت کہاں نصیب
آواز کان میں ابھی بانگِ درا کی ہے

ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوشِ آرزو
اب تو یہی زبان مرے مدّعا کی ہے

لطفِ نہانِ یار کا مشکل ہے امتیاز
رنگت چڑھی ہوئی ستمِ برملا کی ہے

 

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا
محبت کا یہ بھی ہے کوئی قرینا

وہ کیا قدر جانیں دل ِ عاشقاں کی
نہ عالم، نہ فاضل، نہ دانا، نہ بینا

وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں، جو دل میں
تمنا کا پوشیدہ ہے اک خزینا

یہ کیا قہر ہے ہم پہ یارب کہ بے مے
گزر جائے ساون کا یوں ہی مہینا

بہار آئی سب شادماں ہیں مگر ہم
یہ دن کیسے کاٹیں گے بے جام و مینا

حسرت موہانی


چھپ کے اس نے جو خودنمائی کی
انتہا تھی یہ دل ربائی کی

مائلِ غمزہ ہے وہ چشمِ سیاہ
اب نہیں خیر پارسائی کی

دام سے اُس کے چھوٹنا تو کہاں
یاں ہوس بھی نہیں رہائی کی

ہوکے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی

اس تغافل شعار سے حسرت
ہم میں طاقت نہیں جدائی کی

اے عشق نہ  چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم  بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو  اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم  ایجاد نہ  کر

یوں ظلم نہ کر، بیداد  نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ  کر

جس دن سے  ملے  ہیں  دونوں  کا، سب  چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی  کا نام گیا

غمگیں نہ بنا،  ناشاد  نہ  کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟

یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

یہ روگ لگا ہے جب  سے  ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر  وقت  خلش بے خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے  ادھر بیزار ہوں میں،  مرنے  پہ ادھر تیار ہے وہ

اور ضبط  کہے  فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

جس دن سے بندھا  ہے دھیان ترا، گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر  کر  کے شرمائے  ہوئے  سے رہتے  ہیں
کملائے ہوئے پھولوں  کی طرح  کملائے ہوئے سے رہتے ہیں

پامال  نہ کر، برباد نہ  کر
اے عشق  ہمیں  برباد نہ کر

بیددر!  ذرا  انصاف تو  کر! اس عمر میں اور مغموم  ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی ، تاروں  کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن ، ستم! یہ رنج، غضب! مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ

مظلوم  پہ  یوں  بیداد  نہ  کر
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

اے  عشق خدارا دیکھ کہیں ، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ  ہو، وہ  زہرہ جبیں بدنام نہ  ہو
ناموس کا اس  کے  پاس  رہے،  وہ پردہ نشیں  بدنام نہ ہو

اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد  نہ  کر

امید کی جھوٹی جنت کے، رہ  رہ  کے  نہ  دکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت  کے، وعدوں  سے نہ کر بیتاب  ہمیں
کہتا ہے  زمانہ  جس کو خوشی ، آتی  ہے نظر کمیاب ہمیں

چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر
اے  عشق  ہمیں برباد نہ کر

کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے  پہل کا  تجربہ  اور کم عمر ہیں ہم،  انجان ہیں ہم
اے عشق ! خدارا رحم و کرم! معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم

نادان  ہیں  ہم، ناشاد نہ  کر
اے عشق ہمیں برباد  نہ کر

وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا  جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آجائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ  دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو  خیر نہیں

ہے ظلم مگر  فریاد  نہ  کر
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

دو دن  ہی میں عہد طفلی  کے، معصوم زمانے بھول گئے
آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں، لب کووہ ترانےبھول گئے
ان  پاک بہشتی خوابوں  کے،  دلچسپ فسانے بھول گئے

ان خوابوں سے یوں آزادنہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اس جان حیا  کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو  پیار  یہاں آپس میں ہے
ہے  بے بسی زہر  اور  پیار ہے  رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے

کہتی ہے حیا  فریاد  نہ  کر
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

آنکھوں کو  یہ  کیا آزار ہوا ، ہر  جذب نہاں پر رو دینا
آہنگ  طرب پر جھک جانا، آواز فغاں  پر  رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے  بیاں پر رو دینا

احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

ہر دم ابدی راحت  کا سماں  دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ حباب  آب رواں  پر  نقش بقا تحریر نہ  کر
مایوسی کے رمتے بادل  پر  امید کے گھر تعمیر نہ  کر

تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

جی چاہتا ہے اک دوسرے کو  یوں  آٹھ  پہر ہم  یاد  کریں
آنکھوں  میں  بسائیں خوابوں کو، اور دل میں خیال آباد کریں
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں، وحدت کودوئی سےشادکریں

یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

دنیا کا  تماشا  دیکھ  لیا، غمگین  سی ہے ، بے  تاب سی ہے
امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب  سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب  سی ہے

دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

 

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ، ذِکر تمہارا ہوتا

ترکِ دنیا کا یہ دعویٰ ہے فُضول اے زاہد
بارِ ہستی تو ذرا سر سے اُتارا ہوتا

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غم خوار ہمارا ہوتا

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یارب
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

عظمت گِریہ کو کوتاہ نظر کیا سمجھیں
اشک گر اشک نہ ہوتا تو ستارہ ہوتا

لبِ زاہد پہ ہے افسانہء حورِ جنّت
کاش اِس وقت مرا انجمن آرا ہوتا

غمِ اُلفت جو نہ ملتا غمِ ہستی ملتا
کسی صورت تو زمانے میں گزارا ہوتا

کس کو فرصت تھی زمانے کےستم سہنے کی
گر نہ اُس شوخ کی آنکھوں کا اشارہ ہوتا

کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اختر
دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

(اختر شیرانی)

پردہ اُٹھا کے حُسنِ ازل آئے تو بنے
جو دیکھتا ہے مُجھ کو بھی دکھلائے تو بنے
خورشیدِ جان آج نرالا ہی کچھ کرے
تاروں کے بیچ گھوم کے کھوجائے تو بنے
جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے پتھرا گیا ہوں میں
اس بار آپ سامری پتھرائے تو بنے
اے کاش مرے پاؤں میں کانٹے ہی اُگ رہیں
یہ دشت ایک آبلہ بن جائے تو بنے
بہلایا جاتا تھا مُجھے بچپن میں چاند سے
اب مُجھ سے کوئی چاند کو بہلائے تو بنے
تو دیکھ دیکھ آئینہ اترائی ہے بہت
پر اب یہ تجھ کو دیکھ کے اترائے تو بنے

ش زاد

آیا ھے کون کیوں یہ ھوا مشکبار ھے
مو سم کا بھی مزاج بہت خوشگوار ھے

شبنم نے فرطِ شوق میں موتی لُٹائے ہیں
لبَریز گُل کے ہاتھ میں جامِ بہار ھے

میٹھا سا ایک گیت ہے موجوں کے شور میں
دریا کے پار کس کو مرا انتظار ھے

سرگوشیوں میں عہدِ وفا کر رھے ھو کیوں
لَوکہہ دیا نا! میں نے مجھے اعتبار ھے

گھر میرا کھوگیا ھے مگر یاد ہے مجھے
آنگن میں اسکے اک شجرِ سایہ دار ھے

تاجوں پہ جس نےکوئی قصیدہ نہیں لکھا
تختِ سُخن پہ آج وہی تاجدار ھے

تازہ غزل کہی ھے زمیں میں انیس کی
لہجے میں میرے آج غضب کا نکھار ھے

مونا یقین کی نہیں ایماں کی بات ھے
آلِ رسول پہ تو مری جاں نثار ھے

(مونا شہاب 

نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی،
 رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی
سارے اوراقِ غم منتشر ہوگئے،
دیر تک دل میں آندھی سی چلتی رہی
گھاس تھی جگنوؤں کو چُھپائے ہوئے،
 پیڑ تھے تیرگی میں نہائے ہوئے
ایک کونے میں سر کو جھکائے ہوئے
 درد کی شمع افسردہ جلتی رہی
پہلا دن تھا محبت کی برسات کا،
 وقت ٹھہرا تھا تجھ سے ملاقات کا
قطرہ قطرہ گزرتی رہیں ساعتیں،
 سائے لیٹے رہے، دھوپ چلتی رہی
رنج پچھلی مسّرت کے سہتے تھے ہم،
 ایک ہی قریہء جاں میں رہتے تھے ہم
دن ڈھلے یا کسی صبح کے موڑ پر،
 اپنے ملنے کی صورت نکلتی رہی
ایک راتوں سے بچھڑی ہوئی رات میں،
 ہم اکیلے تھے خوابِ ملاقات میں
دونوں ایک دوسرے کی طرف چل پڑے،
 خواب گھٹتا رہا، رات ڈھلتی رہی

 احمد مشتاق

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں

تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیئے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش، تری یادگار بھی اب نہیں
نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں

کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکُلِ خم بہ خم
کِسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیمِ یار بھی اب نہیں

وہ ہجومِ دل زدگاں کہ تھا، تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
ترے آستانے کی خیر ہو، سرِ رہ غبار بھی اب نہیں

وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے، انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جاں نثار کا ذکر کیا، کوئی سوگوار بھی اب نہیں

نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی، وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو، سرِ کوئے یار بھی اب نہیں

جون ایلیا

 

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیونکریاد آتے ہیں

نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

رہا کرتے ہیں قید ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یا د آتے ہیں

حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

حسرت موہانی

وہ کہتے ہيں رنجش کي باتيں بھُلا ديں
محبت کريں، خوش رہيں، مسکراديں
غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں
جواني ہوگر جاوداني تو يا رب
تري سادہ دنيا کو جنت بناديں
شب وصل کي بےخودي چھارہي ہے
کہوتو ستاروں کي شمعيں بجھاديں
بہاريں سمٹ آئيں کِھل جائيں کلياں
جو ہم تم چمن ميں کبھي مسکراديں
وہ آئيں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پر کلياں بچھاديں
بناتا ہے منہ تلخئ مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا ديں
تم افسانہ قيس کيا پوچھتے ہو
آؤ ہم تم کوليليٰ بنا ديں
انہيں اپني صورت پہ يوں کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا ديں

Make a Free Website with Yola.