urdu hai jis ka nam

 

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری

آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں
صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں
رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں
زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں
زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں

 ب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں !
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں

 کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
جب پرچمِ جاں لیکر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت جاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں‌ تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہیں
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا

صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت
رات کو غنچہ دل میں سمٹ آنے والا

کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو ایک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا

تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا

منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا

کیا خبر تھی جو میر ی جاں میں گُھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سر دار بھی لانے والا

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

 

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ

وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ

یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں

کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگاؤ

وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری

انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ

یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں

جو گیا وہ پھر نہ آیا مری بات مان جاؤ

کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک

جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ

 

کٹھن ہے راہ گزر تھوڑي دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑي دور ساتھ چلو

تمام عمر کہاں کوئي ساتھ ديتا ہے
يہ جانتا ہوں مگر تھوڑي دور ساتھ چلو

نشے ميں چور ہوں ميں بھي تمہيں ہوش نہيں
بڑا مزہ ہو اگر تھوڑي دور ساتھ چلو

يہ ايک شب کي ملاقات بھي غنيمت ہے
کسے ہےکل کي خبر تھوڑي دور ساتھ چلو

ابھي تو جاگ رہے ہيں چراغ راہوں کے
ابھي ہے دور سحر تھوڑي دور ساتھ چلو

طواف منزل جاناں ہميں بھي کرنا ہے
فراز تم بھي اگر تھوڑي دور ساتھ چلو

 

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقعہ  ذرا سا
تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا
ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقا
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ہی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری
میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری
جو طعنہ زن تھا مری پوشش دریدہ پر
اسی کے دوش رکھی ہوئی قبا تھی مری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ہوں یہی سزا تھی مری
شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری
کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہر عشق میں کیا آخری صدا تھی مری
جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ہے
اسی طرح کی تو مخلوق خاک پا تھی مری
ہر اک شعر نہ تھا درخور قصیدہ دوست
اور اس سے طبع رواں خوب آشنا تھی مری
میں اسکو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری

 

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کےشہرمیں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو بر باد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہے اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں وہ بن سنور کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستان سے متسل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اسکو زمانے ٹہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹہریں کہ کوچ کر جائیں

فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

************************************

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے
ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا
ہمیں کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف سو ہے
ہمیں نے اہلِ جہاں کا ستم سہا سو سہا
جسے جسے نہیں چاہا اُسے اُسے چاہا
جہاں جہاں بھی مرا دل نہیں رہا سو رہا
نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ
کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا سو کہا
یہ دیکھ تجھ سے وفا کی کہ بے وفائی کی
چلو میں اور کہیں مبتلا رہا سو رہا
ترے نصیب اگر جا لگے کنارے سے
وگرنہ سیلِ زمانہ میں جو بہا سو بہا
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا

اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی راتوں کو ڈھلنا ہے ہوا جیسی ہو
شوق کی آگ کو مدھم نہ کرو دیوانو
اپنی آواز کی لَو کم نہ کرو دیوانو
پھر سے سورج کو نکلنا ہے گھٹا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
یہی مٹی تھی تمہیں جان سے بڑھ کر پیاری
آج اسی خاک سے ایک چشمۂ خون ہے جاری
راہ کتنی ہو کڑی رات ہو کتنی بھاری
ہم کو اس دشت میں چلنا ہے فنا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
اپنے زخموں کو سجائے ہُوئے تاروں کی طرح
پرچمِ جاں کو لیے سینہ فگاروں کی طرح
اِس بیاباں سے گزرنا ہے بہاروں کی طرح
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی رات کو ڈھلنا ہے فضا جیسی ہو

کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے
کس رشک سے دیکھا غمخوار نے میرے
بس اک ترا نام چپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دل بیمار نے میرے
یا گرمئ بازار تھی یا خوف زبان تھا
پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
جب شاعری پردہ ہے فراز اپنے جنوں کا
پھر کیوں مجھے رسوا کیا اشعار نے میرے

Make a Free Website with Yola.