محبتمحبت اوس کی صورتپیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہےگلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہےسحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہےمحبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہےکسی فردوس کی صورتمحبت اوس کی صورتمحبت ابر کی صورتدلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہےچمن کا ذرہ زرہ جھومتا ہے مسکراتا ہےازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہےمحبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہےجو دل ہیں قبر کی صورتمحبت ابر کی صورتمحبت آگ کی صورتبجھے سینوں میں جلتی ہے تودل بیدار ہوتے ہیںمحبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیںکہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہےدلوں کے ساحلوں پہ جمع ہوتی اور بکھرتی ہےمحبت جھاگ کی صورتمحبت آگ کی صورتمحبت خواب کی صورتنگاہوں میں اُترتی ہے کسی مہتاب کی صورتستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیںکہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بے تاب کی صورتمحبت کے شجر پرخواب کے پنچھی اُترتے ہیںتو شاخیں جاگ اُٹھتی ہیںتھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیںتو کب کی منتظر آنکھوں میں شمعیں جاگ اُٹھتی ہیںمحبت ان میں جلتی ہے چراغِ آب کی صورتمحبت خواب کی صورتمحبت درد کی صورتگزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہےشبانِ ہجر میںروشن ستارہ بن کے رہتی ہےمنڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیںنگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیںگلی جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتادکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتاغموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تویہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہےکسی ہمدرد کی صورتگزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سےفضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ
گرد کی صورتمحبت درد کی صورتیاداس موسم میں جتنے پھول کھلیں گے |
شکستِ اناآج کی رات بہت سرد بہت کالی ہےتیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سےاپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسےمشعلِ خواب کچھ اس طور بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہےشوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئیبرف کی سِل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھندلکے بھی نہیں زینت ِ چشمِ بے خوابآس کا روپ محل،دست تہی ہے جیسے!بحر ِ امکان پہ کائی سی جمی ہے جیسے!ایسے لگتا ہے کہ جیسے میرا معمورہ ء جاںکسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے۔نہ کوئی دوست نہ تارہ کہ جسے بتلاؤں !اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انَا کا شیشہمیرا پندار مرے دل کے لئے گالی ہےنبض تاروں کی طرح ڈوب رہی ہے جیسےغم کی پہنائی سمندر سے بڑی ہے جیسےآنکھ صحراؤں کے دامن کی طرح خالی ہےدشتِ جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہےموت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسےتیرگی چھٹنے لگی،وقت رگے گا کیوں کرصبح ِ خورشید لیئے در پہ کھڑی ہے جیسےداغِ رسوائی چھپائے سے نہیں چھپ سکتایہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسےمحبت کے موسمزمانے کے سب موسموں سے نرالے |
خُدا اور خلقِ خُدایہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہوئےبے نام و نشاں پتوں کی طرحبے چین ہوا کے رستے میں گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہےآنکھوں میں شکستہ خواب لئےسینے میں دلِ بے تاب لئےہونٹوں میں کراہیں ضبط کئےماتھے کے دریدہ صفحے پراک مہرِ ندامت ثبت کئے ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہےاے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!یہ طبل و علم یہ تاج و کلاہ و تختِ شہیاس وقت تمہارے ساتھ سہیتارریخ مگر یہ کہتی ہےاسی خلقِ خُدا کے ملبے سے اک گونج کہیں سے اُٹھتی ہےیہ دھرتی کروٹ لیتی ہے اور منظر بدلے جاتے ہیںیہ طبل و علم یہ تختِ شہی ، سب خلقِ خُدا کے ملبے کااک حصہ بنتے جاتے ہیںہر راج محل کے پہلو میں اک رستہ ایسا ہوتا ہےمقتل کی طرف جو کُھلتا ہے اور بن بتلائے آتا ہےتختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے**********************************************تمہیں میں کس طرح دیکھوںدریچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کی چلمن ہےاور اس چلمن کے پیچھے چھپ کے بیٹھےکچھ ستارے ہیں ستاروں کینگاہوں میں عجیب سی ایک الجھن ہےوہ ہم کو دیکھتے ہیں اور پھر آپس میں کہتے ہیںیہ منظر آسماں کا تھا یہاں پر کس طرح پہنچازمیں ذادوں کی قسمت میں یہ جنت کس طرح آئی؟ستاروں کی یہ حیرانی سمجھ میں آنے والی ہےکہ ایسا دلنشیں منظر کسی نے کم ہی دیکھا ہےہمارے درمیاں اس وقت جو چاہت کا موسم ہےاسے لفظوں میں لکھیں تو کتابیں جگمگااٹھیںجو سوچیں اس کے بارے میں توروحیں گنگنا اٹھیںیہ تم ہو میرے پہلو میںکہ خواب زندگی تعبیر کی صورت میں آیا ہے؟یہ کھلتے پھول سا چہرہجو اپنی مسکراہٹ سے جہاں میں روشنی کردےلہو میں تازگی بھردےبدن اک ڈھیر ریشم کاجو ہاتھوں میں نہیں رکتاانوکھی سی کوئی خوشبو کہ آنکھیں بند ہو جائیںسخن کی جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائیںچھپا کاجل بھری آنکھوں میں کوئی راز گہرا ہےبہت نزدیک سے دیکھیں تو چیزیں پھیل جاتی ہیںسو میرے چار سو دو جھیل سی آنکھوں کا پہرا ہےتمہیں میں کس طرح دیکھوںجب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیںجب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیںجب دل کا جوالا سرد پڑاجب شام و سحر کے صحرا میںخوابوں کے ستارے ریت ہُوئےجب عمُر رواں کے مَیداں میںسب زندہ جذبے کھیت ہوئےاس وقت مجھے محسوس ہوا”جس عشق میں ساری عمُر کٹی شاید وہ نظر کا دھوکہ تھاکرنوں سے کسی کے لہجے میں تنویر تھی میری اپنی ہیشب تاب بدن کے جادو میں خود میرے لہو کا نشّہ تھا“کل رات مگر جب کھڑکی پرمہتاب نے آکر دستک دیخوشبو کی طرح لہرانے لگیہر سمت کوئی سرگوشی سی”جب آنکھیں بجھنے لگتی ہوں‘ جب دل کا جوالا سرد پڑےاُس وقت کسی کو کیا معلوم‘ کون اپنا کون پرایا تھا!لہجے میں نشہ تھا کس کے سبب اور کس نے کسے مہکایا تھااُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
|
- Home
- About us
- Picture gallery
- Online store
- Contact us
- القلم-الشعراء
- متفرقات
- علامہ اقبال
- مرزا غالب
- میر تقی میر
- ابن انشاء
- اسرار-ناروی
- فیض-احمد-فیض
- اکبر الہ آبادی
- اختر سروش
- قتیل شفائی
- داغ دہلوی
- ساحر لدھیانوی
- امجد اسلام امجد
- اسرار الحق مجاز
- جگر مراد آبادی
- خوشبیر سنگھ شاد
- پروین-شاکر
- خمار بارہ بنکوی
- شکیل بدایونی
- احمد فراز
- محسن نقوی
- احمد ندیم قاسمی
- بشیر بدر
- اشعار و قطعات
- اعتبار ساجد
- ناصر کاظمی
- مومن خان مومن
- مصطفیٰ زیدی تیغ الہ آبادی
- فراق گورکھپوری
- عبد الحلیم عدم
- شکیب جلالی
- حبیب جالب
- عدیم ہاشمی
- مصحفی
- وسیم بریلوی
- عالمتاب تشنہ