urdu hai jis ka nam

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے 

رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں 

ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے

کر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور

کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے

دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے 

کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے 

اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر

آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے

 

ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں

مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں

یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں

کہاں تک لائے  ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

اِک بار جو آئے پھر نہ آئے

اُس پیکرِ ناز کا فسانہ

دل ہوش میں آئے تو سُنائے

وہ روحِ خیال و جانِ مضموں

دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے

آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر

عارض کہ شراب تھتھرائے

مہکی ہوئی سانس نرم گفتار

ہر ایک روش پہ گل کلکھلائے

راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں

آنچل میں حیا سے منہ چھپائے

اڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں

جیسے کوئی راہ بھول جائے

کچھ پھول برس پڑے زمیں پر

کچھ گیت ہوا میں لہلہائے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
 

وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
میرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں
تیرے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
میرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو تیری قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تیری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت میری اداس نہیں
 

یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کے تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یونہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں دور کی باتیں
پیار سے دیکھتا ہے جب کوئی
چوٹ کھائی ہے بارہا لیکن
آج تو درد ہے عجب کوئی
جن کو مٹنا تھا مٹ چکے ناصر
اُن کو رسوا کرے نہ اب کوئی
 

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی


تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی 

صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری

نگاہِ شوق کس منزل سے گزری

کبھی روئے کبھی تجھ کو پکارا

شبِ فرقت بڑی مشکل سے گزری

ہوائے صبح نے چونکا دیا یوں

تری آواز جیسے دل سے گزری

مرا دل خوگرِ طوفاں ہے ورنہ

یہ کشتی بار ہا ساحل سے گزری

 

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا

حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے

عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا

آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے

عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا

یاد ہیں مرحلے محبّت کے

ہائے اس بے کلی میں کیا کچھ تھا

کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی

آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا

کتنے مانوس لوگ یاد آئے

صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا

رات بھر ہم نہ سو سکے ناصر

پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا

 

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب

ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی

تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں

دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ

آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا

گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا

یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
اک صورت تھی عجب یاد نہیں
ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد ائیں بھی تو سب یاد نہیں
یہ حقیقت ھے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے کہ اب یاد نہیں
یاد ھے سیرِ چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
 

سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے

پہلے اک روزنِ در توڑا تھا
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے

پھر سرِ صبح وہ قصہ چھیٹرا
دن کی قندیل بجھا دی ہم نے

آتشِ غم کے شرارے چن کر
آگ زنداں میں لگا دی ہم نے

رہ گئے دستِ صبا کملا کر
پھول کو آگ پلا دی ہم نے

آتشِ گل ہو کہ ہو شعلۂِ ساز
جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے

کتنے ادوار کی گم گشتہ نوا
سینۂِ نَے میں چھپا دی ہم نے

دمِ مہتاب فشاں سے ناصر
آج تو رات جگا دی ہم نے

 

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
 

خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی

کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش

مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی

خدا وہ دن بھی دکھائے تجھے کہ میری طرح

مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں

بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا

مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا

وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی

 

پھر شامِ وصالِ یار آئی

بہلا غمِ روزگار کچھ دیر

پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو

پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر

پھر ایک نشاطِ بے خودی میں

آنکھیں رہیں اشک بار کچھ دیر

پھر ایک طویل ہجر کے بعد

صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر

پھر ایک نگار کے سہارے

دنیا رہی سازگار کچھ دیر

 

نصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیں

بہت دنوں سے ترا انتطار بھی تو نہیں

تلافئ ستمِ روزگار کون کرے

تو ہم سخن بھی نہیں، رازدار بھی تو نہیں

زمانہ پرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل

کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں

تو ہی بتا کہ تری خاموشی کو کیا سمجھوں

تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں

وفا نہیں نہ سہی، رسم و راہ کیا کم ہے

تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں

اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست

مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں

بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائے

اُداس بھی تونہیں، بے قرار بھی تو نہیں

تو ہی بتا ترے بےخانماں کدھر جائیں

کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں

فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دور

وہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیں

جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی

یہ جبر بھی تو نہیں، اختیار بھی تو نہیں

وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر

یہ کاروبارکوئی کاروبار بھی تو نہ نہیں

عشق میں جیت ہوئی یا مات

آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات

یوں آیا وہ جانِ بہار

جیسے جگ میں پھیلے بات

رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ

زلف گھنے جنگل کی رات

کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا

دل میں رہ گئی دل کی بات

یار کی نگری کوسوں دور

کیسے کٹے گی بھاری رات

بستی والوں سے چھپ کر

رو لیتے ہیں پچھلی رات

سنّاٹوں میں سنتے ہیں

سُنی سُنائی کوئی بات

پھر جاڑے کی رت آئی

چھوٹا دن اور لمبی رات

 

 

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے

مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال

بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے

ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے

بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی

چھلک کے رہ گۓ تیری نظر کے پیمانے

خیال آ گیا مایوس رہ گزاروں کا

پلٹ کے آ گۓ منزل سے تیرے دیوانے

کہاں ہے تو کہ ترے انتطار میں اے دوست

تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے

امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر

جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں

ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے

 

Make a Free Website with Yola.