کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھےرات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھےجہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیںان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھےکر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبورکبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھےدیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہےکبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھےاتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصرآج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھےترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیںمگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیںبہاریں لے کے آئے تھے جہاں تموہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیںیہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستیکہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیںکہاں تک لائے ناتواں دلکہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیںانھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہیہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیںجنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصروہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیںکیا دن مجھے عشق نے دکھائےاِک بار جو آئے پھر نہ آئےاُس پیکرِ ناز کا فسانہدل ہوش میں آئے تو سُنائےوہ روحِ خیال و جانِ مضموںدل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائےآنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغرعارض کہ شراب تھتھرائےمہکی ہوئی سانس نرم گفتارہر ایک روش پہ گل کلکھلائےراہوں پہ ادا ادا سے رقصاںآنچل میں حیا سے منہ چھپائےاڑتی ہوئی زلف یوں پریشاںجیسے کوئی راہ بھول جائےکچھ پھول برس پڑے زمیں پرکچھ گیت ہوا میں لہلہائےکسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے |
تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی |
پھر شامِ وصالِ یار آئیبہلا غمِ روزگار کچھ دیرپھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسوپھر دل کو ملا قرار کچھ دیرپھر ایک نشاطِ بے خودی میںآنکھیں رہیں اشک بار کچھ دیرپھر ایک طویل ہجر کے بعدصحبت رہی خوشگوار کچھ دیرپھر ایک نگار کے سہارےدنیا رہی سازگار کچھ دیرنصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیںبہت دنوں سے ترا انتطار بھی تو نہیںتلافئ ستمِ روزگار کون کرےتو ہم سخن بھی نہیں، رازدار بھی تو نہیںزمانہ پرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصلکہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیںتو ہی بتا کہ تری خاموشی کو کیا سمجھوںتری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیںوفا نہیں نہ سہی، رسم و راہ کیا کم ہےتری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیںاگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوستمگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیںبہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائےاُداس بھی تونہیں، بے قرار بھی تو نہیںتو ہی بتا ترے بےخانماں کدھر جائیںکہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیںفلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دوروہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیںجو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کییہ جبر بھی تو نہیں، اختیار بھی تو نہیںوفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصریہ کاروبارکوئی کاروبار بھی تو نہ نہیںعشق میں جیت ہوئی یا ماتآج کی رات نہ چھیڑ یہ باتیوں آیا وہ جانِ بہارجیسے جگ میں پھیلے باترنگ کھُلے صحرا کی دھوپزلف گھنے جنگل کی راتکچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنادل میں رہ گئی دل کی باتیار کی نگری کوسوں دورکیسے کٹے گی بھاری راتبستی والوں سے چھپ کررو لیتے ہیں پچھلی راتسنّاٹوں میں سنتے ہیںسُنی سُنائی کوئی باتپھر جاڑے کی رت آئیچھوٹا دن اور لمبی راتگرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانےخدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانےمٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیالبجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانےہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہایہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نےبقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئیچھلک کے رہ گۓ تیری نظر کے پیمانےخیال آ گیا مایوس رہ گزاروں کاپلٹ کے آ گۓ منزل سے تیرے دیوانےکہاں ہے تو کہ ترے انتطار میں اے دوستتمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانےامیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرجو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانےنئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیےوہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیےجس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئیان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیےوہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھااب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیےاب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیںایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیےمدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضاان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے |
- Home
- About us
- Picture gallery
- Online store
- Contact us
- القلم-الشعراء
- متفرقات
- علامہ اقبال
- مرزا غالب
- میر تقی میر
- ابن انشاء
- اسرار-ناروی
- فیض-احمد-فیض
- اکبر الہ آبادی
- اختر سروش
- قتیل شفائی
- داغ دہلوی
- ساحر لدھیانوی
- امجد اسلام امجد
- اسرار الحق مجاز
- جگر مراد آبادی
- خوشبیر سنگھ شاد
- پروین-شاکر
- خمار بارہ بنکوی
- شکیل بدایونی
- احمد فراز
- محسن نقوی
- احمد ندیم قاسمی
- بشیر بدر
- اشعار و قطعات
- اعتبار ساجد
- ناصر کاظمی
- مومن خان مومن
- مصطفیٰ زیدی تیغ الہ آبادی
- فراق گورکھپوری
- عبد الحلیم عدم
- شکیب جلالی
- حبیب جالب
- عدیم ہاشمی
- مصحفی
- وسیم بریلوی
- عالمتاب تشنہ