اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مانندِ گل ہیں میرے جگر میں چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ
تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ
لگ چلی بادِ صبا کیا کسی مستانے سے
جھومتی آج چلی آتی ہے مے خانے سے
چُور ہو جاؤں مگر جاؤں نہ مے خانے سے
عہد شیشے سے تو پیمان ہے پیمانے سے
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اوڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے
فکر ہے دوست کو احوال سناؤں کیونکر
ٹکڑے ہو جاتا ہے کلیجا مرے افسانے سے
گر پڑا ہوں نگہِ مست سے چکر کھا کر
ساقیا پہلے اُٹھا تو مجھے پیمانے سے
وہی وحشت ہے وہی خار وہی ویرانہ
دشت کس بات میں اچھا مرے کاشانے سے
سختیاں کھینچنے کی ہو گئی عادت مجھ کو
بت چلے آئیں نہ کھنچ کر کہیں بت خانے سے
ڈر ہے تاثیر نہ کر جائے کسی کی فریاد
کان بھر لیجیے پہلے مرے افسانے سے
دلِ برباد میں آباد ہوئے عشق و جنون
کوئی بستی نہیں بہتر مرے ویرانے سے
شکل ثابت نظر آتی نہیں عمامے کی
شیخ نے بدلی ہے پگڑی کسی مستانے سے
کر دیا صاف الگ دل نے ہمیں الفت میں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں بیگانے سے
جانشیں قیس کے سب وحشیِ صحرا ہو جائیں
دشت آباد نہ ہو گر ترے دیوانے سے
نگہ مست تری گر ہی پڑی دل پہ مرے
لغزشِ پا نہ سنبھالی گئی مستانے سے
اس کی بیداد نے چھوڑی نہیں عالم میں جگہ
نالے گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں دیوانے سے
ایک چلّو میں بہت داغ بہک اٹھتے تھے
آج سنتے ہیں نکالے گئے مے خانے سے
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
ہنسا ہنسا کے شبِ وصل اشک بار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا
یہ کس نے جلوہ ہمارے سرِ مزار کیا
کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا
سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار کیا
اگر یہ سچ ہے تو بے شبہ ہم پہ وار کیا
نہ آئے راہ پہ وہ عجز بے شمار کیا
شبِ وصال بھی میں نے تو انتظار کیا
تجھے تو وعدۂ دیدار ہم سے کرنا تھا
یہ کیا کِیا کہ جہاں کو امیدوار کیا
یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل اندیش
انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا
کہاں کا صبر کہ دم پر بنی ہے اے ظالم
بہ تنگ آئے تو حالِ دل آشکار کیا
تڑپ پھر اے دلِ ناداں کہ غیر کہتے ہیں
اخیر کچھ نہ بنی صبر اختیار کیا
ملے جو یار کی شوخی سے اس کی بے چینی
تمام رات دلِ مضطرب کو پیار کیا
بھُلا بھُلا کے جتایا ہے ان کو رازِ نہاں
چھپا چھپا کے محبت کو آشکار کیا
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاکِ پریشاں مرا غبار کیا
ہم ایسے محوِ نظارہ نہ تھے جو ہوش آ جاتا
مگر تمہارے تغافل نے ہوشیار کیا
ہمارے سینے میں کچھ رہ گئی تھی آتشِ ہجر
شبِ وصال بھی اس کو نہ ہمکنار کیا
رقیب و شیوۂ الفت خدا کی قدرت ہے
وہ اور عشق بھلا تم نے اعتبار کیا
زبانِ خار سے نکلی صدائے بسم اللہ
جنوں کو جب سرِ شوریدہ پر سوار کیا
تری نگہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا
غضب تھی کثرتِ محفل کہ میں نے دھوکہ میں
ہزار بار رقیبوں کو ہمکنار کیا
ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شیوہ اختیار کیا
نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں
وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا
جب ان کو طرزِ ستم آ گئے تو ہوش آیا
برا ہو دل کا برے وقت ہوشیار کیا
فسانۂ شبِ غم ان کو اِک کہانی تھی
کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا
اسیریِ دلِ آشفتہ رنگ لا کے رہی
تمام طرۂ طرار، تار تار کیا
کچھ آگئی داورِ محشر سے امید مجھے
کچھ آپ نے مرے کہنے کا اعتبار کیا
کسی کے عشقِ نہاں میں یہ بد گمانی تھی
کہ ڈرتے ڈرتے خدا پر بھی آشکار کیا
فلک سے طور قیامت کے بن نہ پڑتے تھے
اخیر اب تجھے آشوبِ روزگار کیا
وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کیا تو بڑا تو نے افتخار کیا
بنے گا مہرِ قیامت بھی ایک خالِ سیاہ
جو چہرہ داغِ سیہ رُو نے آشکار کیا