ناروا کہیے، ناسزا کہیے
کہیے کہیے مجھے برا کہیے

تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے
ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے

پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے

آپ اب میرا منہہ نہ کھلوائیں
یہ نہ کہیے کہ مدّعا کہیے

وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے

دل میں رکھنے کی بات ہے غمِ عشق
اس کو ہرگز نہ برملا کہیے

تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے
کہنے والوں کو اور کیا کہیے

وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حالِ دل سب سے جابجا کہیے

مجھ کو کہیے برا نہ غیر کے ساتھ
جو ہو کہنا جدا جدا کہیے

انتہا عشق کی خدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے

میرے مطلب سے کیا غرض مطلب
آپ اپنا تو مدّعا کہیے

صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اسے دیر آشنا کہیے

آگئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیے

آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی اور دوسرا کہیے

ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر
مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور باوفا کہیے

*******************

بات میری کبھی سنی ہی نہیں
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں

دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں

لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں

اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

جان کیا دوُں کہ جانتا ہوں میں
تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں

ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے
پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں

ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں
یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں

دل لگی، دل لگی نہیں ناصح
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں

داغ کیوں تُم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں

************************

کیوں چُراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں

ضعف سے کچھ نظر نہیں آتا
کر رہی ہیں ڈگر ڈگر آنکھیں

چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اِک نظر آنکھیں

ہے دوا ان کی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں

کوئی آسان ہے ترا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں

جلوۂ یار کی نہ تاب ہوئی
ٹوٹ آئی ہیں کس قدر آنکھیں

دل کو تو گھونٹ گھونٹ کر رکھا
مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں

نہ گئی تانک جھانک کی عادت
لئے پھرتی ہیں در بدر آنکھیں

کیا یہ جادو بھرا نہ تھا کاجل
سرخ کر لیں جو پونچھ کر آنکھیں

ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحر پرداز و فتنہ گر آنکھیں

یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں

خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں

نوحہ گر کون ہے مقدّر کا
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں

یہی رونا ہے گر شبِ غم کا
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں

حالِ دل دیکھنا نہیں آتا
دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں

داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
ان کو دے دو نکال کر آنکھیں

***********************

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تُم، تُم سے تُو ہونے لگی

چاہیے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دو بدو ہونے لگی

میری رسوائی کی نوبت آ گئی
ان کی شہرت کو بکو ہونے لگی

ہے تری تصویر کتنی بے حجاب
ہر کسی کے روبرو ہونے لگی

غیر کے ہوتے بھلا اے شامِ وصل
کیوں ہمارے روبرو ہونے لگی

نا امیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی

اب کے مل کر دیکھیے کیا رنگ ہو
پھر ہماری جستجو ہونے لگی

داغ اترائے ہوئے پھرتے ہیں آج
شاید اُن کی آبرو ہونے لگی

************************************

بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تَن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بَن کے بیٹھے ہیں

دلوں پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں

الہٰی کیوں نہیں اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دُشمن کے بیٹھے ہیں

یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دلِ ناداں
ابھی پھر سے روٹھ جائیں گے ابھی وہ مَن کے بیٹھے ہیں

اثر ہے جذب الفت میں تو کھینچ کر آہی جائیں گے
ہمیں پرواہ نہیں ہم سے اگر وہ تَن کے بیٹھے ہیں

سبک ہو جائیں گے گر جائیں گے وہ بزمِ دشمن میں
کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں تو لاکھوں مَن کے بیٹھے ہیں

فسوں ہے یا دعا ہے یہ معّما کُھل نہیں سکتا
وہ کچھ پڑھتے ہوئے ، آگے میرے مدفن کے بیٹھے ہیں

بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہائے سامنے دُشمن کے بیٹھے ہیں

یہ اُٹھنا بیٹھنا محفل میں اُن کا رنگ لائے گا
قیامت بن کے اُٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں

کسی کی شامت آئیگی کسی کی جان جائیگی
کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

قسم دے کر اُنہیں سے پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اُس کے
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دُشمن کے بیٹھے ہیں

**********************************

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو

دل میں سو شکوہء غم پوچھنے والا ایسا
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو

مجھ کو ملتا ہی نہیں مہر و محبت کا نشان
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو

ہمدموں اُن سے میں کہہ جاؤنگا حالت دل کی
دو گھڑی کے لیئے دیوانہ بنا دو مجھ کو

بےمروت دل بیتاب سے ہو جاتا ہے
شیوہء خاص تم اپنا ہی سکھا دو مجھ کو

تم بھی راضی ہو تمہاری بھی خوشی ہے کہ نہیں
جیتے جی داغ یہ کہتا ہے مِٹا دو مجھ کو

*************************************
کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
سنا کے حال چپکے چپکے، نظر اُٹھائی نہ سر اُٹھا کر

نہ طور دیکھے، نہ رنگ برتے غضب میں آیا ہوں دل لگا کر
وگر نہ دیتا ہے دل زمانہ یہ آزما کر، وہ آزما کر

تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر

تمہیں تو ہو جو کہ خواب میں ہو، تمہیں تو ہو جو خیال میں ہو
کہاں چلے آنکھ میں سما کر، کدھر کو جاتے ہو دل میں آکر

ستم کہ جو لذت آشنا ہوں، کرم سے بے لطف، بے مزا ہوں
جو تو وفا بھی کرے تو ظالم یہ ہو تقاضا کہ پھر جفا کر

شراب خانہ ہے یہ تو زاہد، طلسم خانہ نہیں جو ٹوٹے
کہ توبہ کر لی گئی ہے توبہ ابھی یہاں سے شکست پاکر

نگہ کو بیباکیاں سکھاؤ، حجاب شرم و حیا اُٹھاؤ
بھلا کے مارا تو خاک مارا، لگاؤ چوٹیں جتا جتا کر

نہ ہر بشر کا جمال ایسا، نہ ہر فرشتے کا حال ایسا
کچھ اور سے اور ہو گیا تو مری نظر میں سما سما کر

خدا کا ملنا بہت ہے آساں، بتوں کا ملنا ہے سخت مشکل
یقیں نہیں گر کسی کو ہمدم تو کوئی لائے اُسے منا کر

الہٰی قاصد کی خیر گذرے کہ آج کوچہ سے فتنہ گر کے
صبا نکلتی ہے لڑکھڑا کر، نسیم چلتی ہے تھرتھرا کر

جناب! سلطانِ عشق وہ ہے کرے جو اے داغ اک اشارہ
فرشتے حاضر ہوں دست بستہ ادب سے گردن جھکا جھکا کر
****************************************

یاں دل میں خیال اور ہے، واں مدنظر اور
ہے حال طبیعت کا اِدھر اور، اُدھر اور

ہر وقت ہے چتون تری اے شعبدہ گر اور
اک دم میں مزاج اور ہے، اک پل میں نظر اور

ناکارہ و نادان کوئی مجھ سا بھی ہوگا
آیا نہ بجز بے خبری مجھ کو ہنر اور

ہوں پہلے ہی میں عشق میں غرقاب خجالت
کیا مجھ کو ڈبوتے ہیں مرے دیدہء تر اور

ٹھہرا ہے وہاں مشورہء قتل ہمارا
لو حضرت دل ایک سنو تازہ خبر اور

بھر بھر کے جو دیتے ہیں وہ جام اور کسی کو
لے لے کے مزے پیتے ہیں یا خون جگر اور

ہم جانتے ہیں خوب تری طرز نگہ کو
ہے قہر کی آنکھ اور، محبت کی نظر اور

اے داغ مے عشق کو کیا زہر سے نسبت
ہے اِس میں اثر اور ، وہ رکھتا ہے اثر اور
****************************
واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جامِ شراب ہو

معشوق کا تو جُرم ہو، عاشق خراب ہو
کوئی کرے گناہ کسی پر عذاب ہو

وہ مجھ پہ شیفتہ ہو مجھے اجتناب ہو
یہ انقلاب ہو تو بڑا انقلاب ہو

دنیا میں کیا دھرا ہے؟ قیامت میں لطف ہو
میرا جواب ہو نہ تمہارا جواب ہو

نکلے جدھر سے وہ، یہی چرچا ہوا کیا
اس طرح کا جمال ہو ایسا شباب ہو

در پردہ تم جلاؤ، جلاؤں نہ میں چہ خوش
میرا بھی نام داغ ہے گر تم حجاب ہو

*****************************

کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو

مطلب کے کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کے پوچھتی ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو

آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کئے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو

پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اُجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو

اک روز رنگ لائینگی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو

دلدار و دلفریب دل آزار دلستاں
لاکھوں میں ہم کہینگے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو

کرتے ہو داغ دور سے مے خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو

*************************

آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے

جو ہو اوس چشم مست سے بیخود
پھر اوسے ہوشیار کون کرے

تم تو ہو جان اِک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے

آفتِ روزگار جب تم ہو
شکوہء روزگار کون کرے

اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے

ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے

آنکھ ہے ترک زلف ہی صیّاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے

غیر نے تم سے بیوفائی کی
یہ چلن اختیار کون کرے

وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے

داغ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے

**************************

یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے

بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے

آئینگی ٹوٹ ٹوٹکر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے

ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے

بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی
اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے

موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست
خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے

افسانہء رقیب بھی لو بے اثر ہوا
بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے

رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر
اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے

بیٹھا ہے اعتکاف میں*کیا داغ روزہ دار
اے کاش میکدہ کو یہ مردِ خدا چلے

***********************

ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے؟

رحم کر میرے حال پر واعظ
کہ اُمنگیں بھی ہیں شباب بھی ہے

مار ڈالا ہے اِس دو رنگی نے
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے

عشق بازی کو ہے سلیقہ شرط
یہ گناہ بھی ہے یہ ثواب بھی ہے

داغ کا کچھ پتا نہیں ملتا
کہیں وہ خانماں خراب بھی ہے؟