urdu hai jis ka nam

زندگی کے سراب سے بچنا
عمر بھر کے عذاب سے بچنا
جس کی انگڑائی ہوش گم کر دے
ایسے کافر شباب سے بچنا
جو خود اپنے ہی گھر کا دشمن ہو
ایسے خانہ خراب سے بچنا
جس کے پہلو میں لاکھ کانٹے ہوں
ایسے رنگیں گلاب سے بچنا
بے سبب دل نہ ٹوٹ جائیں کہیں
دل لگی میں حساب سے بچنا
پڑھتے رہنا کتب زیست مگر
بے وفائی کے باب سے بچنا
آگہی خود عذاب ہے لیکن
بے خودی کی شراب سے بچنا

دوستی کی روپ میں دھوکہ ملا
جو تبسم بھی ملا جھوٹا ملا
دوستی کے زخم جس نے کھائے تھے
دشمنی کی لاش پر روتا ملا
جوڑتا تھا قلب جو ٹوٹے ہوئے
وہ خود اپنی ذات میں ٹوٹ ملا
جو خود اپنی ذات میں اک بزم تھا
وہ مجھے جب بھی ملا تنہا ملا
جاگتا تھا جو کسی کے واسطے
وہ بھی آخر ایک دن سوتا ملا
زندگانی اس طرح بدلی کہ بس
ہر کوئی آفت زدہ سہما ملا
بجھ رہا تھا جب چراغ زندگی
ایک احساس زیاں جلتا ملا
کس سے بولیں کس سے حال دل کہیں
ہر کوئی اپنا ہی گرویدہ ملا
شہر کیا ہے ایک بزم کار زار
ہر کوئی حالات سے لڑتا ملا
 

میں بھول جاؤں جسے یہ وہ حادثہ بھی نہیں
وہ آج ایسے ملا جیسے جانتا بھی نہیں
حسین اس سے جہاں میں کوئی سوا بھی نہیں
یہ اور بات ہے کہ میں اس کو چاہتا بھی نہیں
مرے خیال کی دہلیز پر وہ آ بیٹھا
اب اس سے بچ کے گزرنے کا راستہ
زہے نصیب وہ ناراض ہو گئے ہم سے
یہ اور بات ہے کہ اپنی کوئی خطا بھی نہیں
کسے خبر تھی کہ سورج بھی ڈوب جائیگا
اس اک مکان سے جس میں کوئی دیا بھی نہیں
سجائے رکھتا ہے اشکوں کے دیپ پلکوں پر
عجیب شخص ہے کچھ منہ سے بولتا بھی نہیں
ہماری سمت سبھی راستے سمٹ آئے
تمہری سمت ابھی یہ قدم اٹھا بھی نہیں
کسی کی رات ہے روشن چراغ کے مانند
کسی مکان میں بجھتا ہوا دیا بھی نہیں
گناہگار نگاہوں نے یہ بھی دیکھا ہے
گناہگار ہوا جس نے کچھ کیا بھی نہیں
لو ہم نے زیست بھی کر دی اسی کے نام سروش
جو ہم کو پیار سے ایک باردیکھتا بھی نہیں

 یہ مرے ساتھ کیا کیا تم نے
مجھ کو بدنام کر دیا تم نے
دو گھڑی بات چیت کیا کر لی
شہرہ عام کر دیا تم نے
ہائے نادان راز دل کہ کر
طشت از بام کر دیا تم نے
دل چرایا چرا کے چپکے سے
مجھ پہ الزام دھر دیا تم نے
چشم و ابرو کے اک اشارے سے
جو نہ کہنا تھا کہ دیا تم نے
دل دھڑکنے لگا ہے سینے میں
کیا مرا نام پھر لیا تم نے

 آنکھوں میں سمندر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
طوفان سر منظر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا

ساقی کی نگاہوں میں ہم آے تو ہاتھوں میں

ٹوٹ ہوا ساغر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
محفل ہے کھربوں کی اور زد پہ نگاہوں کی
اک کانچ کا پیکر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
ایک مست قلندر ہے اور شہر ستمگر ہے
ہر ہاتھ میں پتھر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
رنگوں کی بہاروں میں پھولوں کی قطاروں میں
تنہا دل مضطر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
رخت سفر اٹھاؤ ہوتا ہے چل چلاؤ
نقارہ بج رہا ہے اب دیکھئے کیا ہوگا

 نہ جانے کون آنکھوں میں بسا ہے
نظر میں ہر طرف میلہ لگا ہے
جسے دیکھو مجھی پر ہیں نگاہیں
مرے چہرے پہ آخر کیا لکھا ہے
نہ پوچھو کوئی میرے دل کی حالت
بس اتنا جان لو ٹوٹا ہوا ہے
نہ جانے کیوں نگاہیں پھیر بیٹھا
وہ جس نے پیار تو مجھ سے کیا ہے
ہمیشہ معتبر سمجھا تھا جس کو
وہ آج مجھ کو دھوکہ دے گیا ہے
جسے نشہ تھا ہر دم جیتنے کا
وہ ناکامی کے صدمے سے مرا ہے
اسے اک روز دنیا جانتی تھی
جو تنہائی کے صدمے مرا ہے
فنا کر دیں گے وہ کہتے ہیں ہم کو
ہمارے نام سے جن کی بقا ہے
پلٹ کر پھر نہیں دیکھا کسی نے
ہمارے پاس سے جو اٹھ گیا ہے
نظر میں آگئی ہے میری منزل
قدم رہ رہ کے مجھ کو روکتا ہے
مجھے تو ایک دنیا جانتی ہے
بتا تجھ کو کوئی پہچانتا ہے ؟

 ہو سکے تو مجھے بھلا دینا
اپنی ہر یاد کو مٹا دینا
میں ادھورا سا خواب ہوں جانم
بے تبسم گلاب ہوں جانم
میں بہت دور کی صدا جیسے
ایک بے وجہ سی دعا جیسے
ہے بجا میں نے محبت کی تھی
تجھ کو پانے کی جسارت کی تھی
میں نے چاہا تھا تجھے میرے صنم
میں تیرے ساتھ چلا تھا ہمدم
اب وہ انداز محبت ہی نہیں
تجھ کو پانے کی جسارت ہی نہیں
میں ترے ساتھ نہیں چل سکتا
آتش غم میں نہیں جل سکتا
ہو سکے تو مجھے بھلا دینا
میری ہر یاد کو مٹا دینا

 تجھ کو چاہا ہے مری جان نہ جانے کب سے
تجھ کو مانگا ہے مری جان خدا سے رب سے
تیری یادوں میں کتنے سال بتائے میں نے
تاج کتنے ہی خیالوں میں بنائے میں نے
میں نے احساس دلایا تھا تجھے میرے صنم
ساتھ چلتا ہے میری راہ میں میرا ہمدم
تو میرے ساتھ اسے کیسے دیکھ پائے گی
تیرے دل میں وہ میرے ساتھ کیسے سمائے گی
یاد کر تونے کہا تھا مجھے انکار نہیں
ساتھ اس کا تو میری راہ میں دیوار نہیں
تو نے چاہا ہے اسے وہ ہے محبت تیری
اور تو ،تو تو میری جان ہے چاہت میری
میں تجھے پیار کرونگی سدا ایسے ہی صنم
میں ترے ساتھ چلونگی سدا ایسے ہی صنم
اپنے بارے میں ہر اک راز بتایا میں نے
اپنی تصویر کو ہر رخ سے دکھایا میں نے
اور پھر تو میری ہمدم، مری ہمراز بنی
ساز تھا میں تو میری جان تو آواز بنی
ہم کے چل نکلے تھے الفت کی حسین راہوں میں
چین ملتا تھا تجھے آکے میری بانہوں میں

 میں تو وہ ہوں کہ خموشی کو زبانیں دے دوں
اور اگر چھاؤں تو لمحوں کو زمانے دے دوں
میں اندھیروں میں بھی سورج کا تصور کھینچوں
میں تھپیڑوں میں بھی ساحل کی ہوائیں سو چوں
وہ تری بات وہ الفاظ میں بھولا تو نہیں
وہ ترے پیار کا انداز میں بھولا تو نہیں
تو نے جو کچھ کہا تھا اس کا خلاصہ یوں ہے
،میں ترے ساتھ ہوں ہر آن،، پریشان کیوں ہے،،
تو نے تو پیار نبھانے کی قسم کھائی تھی
اپنی باہوں میں چھپانے کی قسم کھائی تھی
مجھ کو بتلا جو میری جان خطا ہے میری
جس کی پاداش میں یہ سخت سزا ہے میری
کیوں بھلا مجھ سے تو اس درجہ پرے جاتی ہے
کیا سبب ہے جو محبت سے ڈرے جاتی ہے
کیا میرا دل تھا کھلونا کہ جو کھیلا تو نے
کھیل کے توڑ دیا توڑ کے پھینکا تو نے
گر اسے پیار تو کہتی ہے تو نفرت کیا ہے ؟
گر اسے ساتھ تو کہتی ہے تو فرقت کیا ہے ؟

 

akhtar sarwish

تیری ہمت کی داد ہے اختر
کس خرابے میں مسکرایا ہے
 

پھول گلدان میں سجا رکھنا
ان کی یادوں سے رابطہ رکھنا
زندگی حسن کا تبسم ہے
لب تبسم سے آشنا رکھنا
دم نہ گھٹ جائے بند کمرے میں
کچھ ہوا کا بھی راستہ رکھنا
خامشی ہو تو خوف آتا ہے
گفتگو کا بھی سلسلہ رکھنا
روشنی کی طلب رہے نہ رہے
گھر میں لیکن دیا جلا رکھنا
ساز دل زندگی کی دھڑکن ہے
دل کو ہر آن جاگتا رکھنا
بے خودی بے حسی نہ بن جائے
بے شعوری سے فاصلہ رکھنا
چار دن کی بہار کیا معنی
زندگی بھر کا واسطہ رکھنا
ہائے کس کی نظر لگی مجھ کو
دیکھنا دوستو خبر رکھنا
ہے تقاضہ نئی سیاست کا
دشمنوں سے بھی رابطہ رکھنا
اور جب خواب ٹوٹ جائیں سروش
دل کو پابند حوصلہ رکھنا
 

 کیجئے پیار چاہتوں کے عوض
دکھ نہ دیجئے رقابتوں کے عوض
کیا خبر تھی کہ ٹوٹ جائینگے
خواب دوری کے قربتوں کے عوض
خار دل میں چبھو گیا کوئی
پھول جیسی محبتوں کے عوض
راز دل کہ گئیں تری آنکھیں
میری آنکھوں سے رابطوں کے عوض
چڑھ گئیں بھینٹ کتنی باراتیں
بے سر و پا روایتوں کے عوض
آگیا بال شیشہ دل میں
دل سے دل کو شکایتوں کے عوض
آخر کار دل نے مانی ہار
جانے کتنی وضاحتوں کے عوض
رنگ چہروں سے اڑ رہی ہیں سروش
چار دن کی رفاقتوں کے عوض

جینے کے لئے کوئی ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
سائے کی تمنا ہے شجر ڈھونڈ رہا ہوں
جس شہر میں بے موت بھی مر جاتے ہیں انسان
اس شہر میں جینے کا ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
میں ٹوٹ کر بکھروں تو کوئی مجھ کو سمیٹے
شیشہ ہوں کوئی آئینہ گر ڈھونڈ رہا ہوں
ہر سمٹ لٹیرے ہی یہاں سنگ بدست ہیں
جو سر کو بچائے وہ سپر ڈھونڈ رہا ہوں
آگ اور دھواں دشمن جان چاروں طرف ہے
جاؤں میں کدھر راہ گزر ڈھونڈ رہا ہوں
اس شہر کو سب ہی نے اجاڑا ہے ابھی تک
جو اس کو سجائے وہ بشر ڈھونڈ رہا ہوں
برسوں میں بسایا تھا بہت چاہا سے جس کو
مل جائے وہ جلتا ہوا گھر ڈھونڈ رہا ہوں
اجڑی ہوئی بستی میں خموشی سے کھڑا ہوں
گویا کوئی انسان ،بشر ڈھونڈ رہا ہوں
برسوں ہوئے جس شخص کی صورت نہیں دیکھی
پھر آج اسی شخص کا گھر ڈھونڈ رہا ہوں

 جن کو دعوای تھا زمانے میں شناسائی کا
شکوہ کرتے ہیں وہی عالم تنہائی کا
اتنے بزدل تو نہ تھے غیر کی باتیں سنتے
ہم کو دھڑکا تھا جہاں میں تری رسوائی کا
ایک مدت تری بانہوں میں گزاری ہم نے
کیسے گزرے گا زمانہ شب تنہائی کا
اتنے ہمدرد نہیں آپ کے مرہم دیںگے
ہم سے دعوے نہ کریں آپ مسیحائی کا
بھولنے والا ہمیں بھول چکا ہے لیکن
'نام لے لے کے جئے جاتے ہیں ہر جائی کا
تم نہ دیکھو مرے زخموں کو بہر حال سروش
تم پہ آجائے گا الزام تماشائی کا

محبتوں کا بھی نفرتوں میں شمار آیا تو کیا کروگے ؟
تمہاری جانب سے مرے دل میں غبار آیا تو کیا کرو گے ؟
یہ تعن و تشنیع یہ تلخ باتیں مجھے جلانے کو کر رہے ہو
تمہاری باتوں سے میرے دل کو قرار آیا تو کیا کرو گے ؟
تم اپنی قاتل نظر سے جاناں شرر فشانی تو کر رہے ہو
مری نگاہوں میں زندگی کا خمار آیا تو کیا کرو گے ؟
نہ امتحان وفا میں ڈالو میرے ارادے عظیم تر ہیں
میں راستے کی ہر ایک منزل گزار آیا تو کیا کرو گے ؟
سروش گلشن اجاڑتے ہو ،گلوں سے گھر کو سجا رہے ہو
جو گلستاں میں گلوں کے بدلے ،شرار آیا تو کیا کرو گے ؟

 میری دنیا میں خموشی کا سکوں طاری تھا
میرے اطراف میں چاہت کا فسوں طاری تھا
میں سبک گام تھا الفت کی حسین منزل کو
کوئی دھڑکا ہی نہ تھا میرے نرالے دل کو
ساری دنیا سے الگ ہو کے چلا جاتا تھا
اپنی چاہت میں فنا ہو کے چلا جاتا تھا
اپنے اطراف کی دنیا سے میں بے گانہ تھا
تیری آواز کے ہر ساز سے انجانا تھا
پھر اچانک تری آواز نے ٹوکا مجھ کو
دے کے الفت کا اشارہ وہیں روکا مجھ کو
میں نے حیرانی سے سوچا یہ صدا ہے کس کی
میری حیرانی کو توڑے یہ ادا ہے کس کی
پھر ترا پیار سے لبریز تبسم دیکھا
تیری باتوں میں محبت کا ترنم دیکھا
تیری آنکھوں میں مرے پیار کی تصویر بنی
زلف تیری مرے احساس کی زنجیر بنی
اور جب تو مرے نزدیک تھی آتی جاتی
مرے احساس میں ہلچل تھی مچاتی جاتی
میں نے تجھ سے کہا تھا مجھ کو نہ چاہو جانم
خار ہیں راہ میں تم ساتھ نہ آؤ جانم
مری الفت میں تشدد بھی عجب ہے تم مانو
میری چاہت میں تردد ہے غضب ہے مانو
تم میرے ساتھ نہ راہوں میں گھسٹ پاؤ گی
گر پڑو گی کہیں ٹھوکر سے الٹ جاؤ گی
چھوڑ دوگی مرا دامن بھی جہاں کے ڈر سے '
گھر نہ بناؤ گی گلشن میں خزاں کے ڈر سے
تم نے یہ سن کے تھا کہا ،تو تو ہے چاہت میری
مجھ کو لے کہ تیرے ساتھ ہے الفت میری

 میری یادوں تری نیند بھی اڑ جاتی تھی
نیند آتی تو مرے خواب میں کھو جاتی تھی
مجھ کو غمگین جو دیکھے ترا دل روتا تھا
چوٹ لگتی تھی مجھے درد تجھے ہوتا تھا
میری ہر بات تجھ کو بھلی لگا کرتی تھی
تو میرا پیار ہے ،، تو ہی تو کہا کرتی تھی
پھر چھناکے سے وہ اک خواب حسین ٹوٹ گیا
رنگ ہاتھوں سے ترے پیار کا سب چھوٹ گیا
اب تری آنکھ میں وہ پیار کی تصویر نہیں
اب تیری زلف میرے پاؤں کی زنجیر نہیں
اب میرے نام سے تیرا دل دھڑکتا ہی نہیں
عکس میرا تیری سوچوں میں الجھتا ہی نہیں
اب تجھے یاد نہیں تو نے محبت کی تھی
کون تھا جس نے تجھے اپنی محبت دی تھی
ایک الجھن ہے کہ جو مجھ سے سلجھتی نہیں
اور تو ہے کہ میری بات سمجھتی ہی نہیں
اب اچانک یہ تبدل یہ تغیر کیسا
تیری باتوں میں یہ انجان تصور کیسا
اب میں ایک گونجتی آوارہ صدا ہوں بن میں
اور تو کھو گئی نغموں کے سریلے پن میں
تو مجھے اپنے خیالوں میں بلاتی ہی نہیں
یاد میری تجھے ایک پل کبھی آتی ہی نہیں
تجھ کو احساس نہیں میری محبت کیا ہے
میری دھڑکن ہے کہاں قلب کی حرکت کیا ہے
نظریں اٹھتی ہیں مگر چاہ کا نداز نہیں
لب لرزتے ہیں مگر پیار کی آواز نہیں
میں میری جان شکایت نہیں کرتا تجھ سے
گر میری جان محبت نہیں کرتا تجھ سے
تو نے جانا ہی نہیں پیار کی حدت کیا ہے
تو نے سمجھا ہی نہیں درد کی شدت کیا ہے
آج بھی تو میرے خوابوں میں بسی رہتی ہے
تیری تصویر ان آنکھوں میں سجی رہتی ہے
دل لگایا ہے تو پھر دل کا ہٹانا کیسا
بن گیا نقش تو پھر دل سے مٹانا کیسا
میرے دل سے تو چلی جائے یہ ممکن ہی نہیں
میری چاہت میں کمی آئے یہ ممکن ہی نہیں
جس کی چاہت نہ ہو وہ چیز اٹھاتا ہی نہیں
روکنا ہو تو قدم اپنا بڑھاتا ہی نہیں
چل پڑوں جانب منزل تو ٹھہرتا ہی نہیں
راہ کی شدت تو تکلیف سے ڈرتا ہی نہیں

دیکھیں کسی سے جھوٹی محبت نہ کیجئے
مرجائے کوئی ایسی شرارت نہ کیجئے
ہونے لگا ہے خود پہ ہمیں اور ہی گماں
الله اس قدر بھی محبت نہ کیجئے
مانا کہ دل ہے چیز بہت قیمتی مگر
اب اسکی اسقدر بھی حفاظت نہ کیجئے
لگ جائے نہ کہیں نظر حسن و جمال کو
یوں اپنی اب اسقدر بھی زیارت نہ کیجئے
بدنامیوں کے دیپ نہ جلنے لگیں حضور
ہم سے تعلقات کی شہرت نہ کیجئے
ہم کو غم فراق کی عادت سی ہو گئی
اب آپ التفات کی زحمت نہ کیجئے
وہ خود تو کھیلتے ہیں مرے دل سے رات دن
اور مجھ کو یہ قسم کہ شرارت نہ کیجئے
 

ان کے کوچے میں گھر بنایا ہے
آندھیوں میں دیا جلایا ہے
لگ رہی ہیں حقیقتیں بھی فریب
دل نے اتنا فریب کھایا ہے
سانس بھی لے رہا ہوں آہستہ
جب سے شیشے کا گھر بنایا ہے
اس میں تیرا کوئی کمال نہیں
میں نے تجھ کو صنم بنایا ہے
ان کی پلکیں اٹھیں تو یہ جانا
دل ہمارا نہیں پرایا ہے
آپ نے بس نگاہ پھیری تھی
لوگ کہتے ہیں دل دکھایا ہے
یہ نہ پوچھو حال دل کیا ہے
بس یہ جانو کہ دل لگایا ہے
ہے خرابے کی بات مت پوچھو
وقت نے ہم کو آزمایا ہے
تیری ہمت کی داد ہے اختر
کس خرابے میں مسکرایا ہے
 

کسی کے آنکھ سے ایک بار جو گرا آنسو
ہمارے دل پہ کئی وار کر گیا آنسو
وہ دیکھو ایک ستارہ فلک سے ٹوٹ گیا
نگاہ ناز سے رخسار پہ گرا آنسو
تری خموش مزاجی تجھے مبارک ہو
بتا گیا ترا ہر راز بولتا آنسو
تمہیں نہیں ہے ضرورت زبان سے کچھ کہنے کی
تمہارا درد ٹرپ کر بتا گیا آنسو
تمام عمر نہ کہ پائی جو زبان میری
بس ایک پل میں وہی بات کہ گیا آنسو
پلک پہ آکے یہ سوچا کہ اب کدھر جائے
سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو گر پر آنسو
بہت سنبھال کے رکھ اب اس کو پائمال نہ کر
جو چشم خواب میں رہتا ہے جاگتا آنسو
رہا جو آنکھ میں موتی بنا رہا لیکن
گرا جو آنکھ سے مٹی میں مل گیا آنسو
ہمارا خون بھی حساس ہے بلا کا سروش
ذرا سا جوش میں آیا تو بن گیا آنسو

رات دن اک آئینہ دیکھا کیا
میں خود اپنے عیب کو ڈھونڈا کیا
زندگی اتنی گزر جانے کے بعد
سوچتا ہوں زندگی میں کیا کیا
یوں گزاری ہم نے اپنی زندگی
جیسے جبرا ً کوئی سمجھوتہ کیا
بے تکلف ہو گئے ہم سے سبھی
جس نے چاہا ہم کو شرمندہ کیا
ہم شکیت بھی نہ لب پر لا سکے
اس نے اتنے پیار سے رسوا کیا
راستے سب بند تھے اپنے لئے
دل کے دروازے کو ہم نے وا کیا
کشت و خوں کا کھل دیکھا اس قدر '
زندگی کو موت کا تحفہ کیا
رہزن ملتے رہے ہر موڑ پر
راہبر کا خواب ہی دیکھا کیا
چلدئے ہم جس سمت کو چل دئے
منہ اٹھا جس سمت کو رستہ کیا
جب لبوں کو سی لیا ہم نے سروش
خامشی نے بیکراں چرچا کیا

غزل یہ اور بات چھپالو، تمہیں ہوا کیا ہے
وگرنہ چہرہ بتاتا ہے سانحہ کیا ہے
یہ اور بات ہے آنکھوں نے بیوفائی کی
و گرنہ کس کو خبر تھی ہمیں ہوا کیا ہے
یہ اور بات بھلا دو تمام ہی وعدے
و گرنہ تم ہی بتا دو مری خطا کیا ہے
یہ اور بات زخم کوئی نیا دے جاؤ
و گرنہ تم سے مری جان آسرا کیا ہے
یہ اور بات تم سے گلہ نہیں کرتے
و گرنہ ہم بھی سمجھتے ہیں ماجرا کیا ہے
یہ اور بات کہ ہم پر عیاں نہیں کرتے
وگرنہ تم بھی سمجھتے ہو مدعا کیا ہے
یہ اور بات ہے ارادے ہی ٹوٹ جائیں سروش
و گرنہ دل کسی ناصح کی مانتا کیا ہے

تو اگر ساتھ چل رہا ہوتا
شہر کا شہر جل رہا ہوتا
ہر نگاہ طالب کے سینے سے
اک دھواں سا نکل رہا ہوتا
آگ لگ جاتی آسمانوں میں
سایہ ابر جل رہا ہوتا
خوں ہو جاتی ہر کلی جانم
ہر گل تر ،مچل رہا ہوتا
گلستان کی حسین باہوں میں
تن بدن گل کا .جل رہا ہوتا
روشنی چاند سے بھی چھن جاتی
اور سورج پگھل رہا ہوتا
بانسری کے سریلے سینے سے
غم کا لاوا ابل رہا ہوتا
بکھرے ہوتے ستارے راہوں میں
میں ستاروں پہ چل رہا ہوتا
تو اگر ساتھ چل رہا ہوتا
تو اگر ساتھ چل رہا ہوتا

اے مری جان اے مرے محبوب
تجھ کو پانے کی آرزو ہے بہت
تجھ سے ملنے کی جستجو ہے بہت
جی میں آتا ہے پیار سے ایک دن
تری زلفوں میں انگلیاں پھیروں
جی میں آتا ہے زلف برہم سے
دیر تک کھیلتا رہوں ایک دن
تری سانسوں کی گرم لہروں سے
اپنے تن من میں زندگی بھر لوں
تیرے پیکر سے خوشبوئیں لے کر
اپنی سانسوں میں تازگی بھر لوں
دیر تک دیکھتا رہوں تجھ کو
اپنی آنکھوں میں روشنی بھر لوں
ڈوب جاؤں تیرے تصور میں
اپنی دھڑکن میں راگنی بھر لوں
تھام کر تیرا چہرہ ہاتھوں سے
تیری آنکھوں میں اپنا دل دیکھوں
پر مری جان یہ تو خواہش ہے
اور خواہش سے کچھ نہیں ہوتا
دور رہ کر کوئی محبت میں
اپنی منزل کو پا نہیں سکتا
اور یہ تو ہے بات الفت کی
اس میں خواہش سے کچھ نہیں ہوتا
دور رہ کر کوئی محبت میں
اپنی منزل کو پا نہیں سکتا
اس لئے میرا مدعا یہ ہے
میری جاں میری التجا یہ ہے
پیار سے میرا نام لے کر جانم
میرے ہاتھوں کو تھام لے جانم

 مرے محبوب تجھے اس کا یقین ہو کہ نہ ہو
میں جلاتا ہو تری راہ میں آنکھوں کے چراغ
میں سجاتا ہوں تری چاہ میں یادوں کے چراغ '
تو نے چھوڑ دیا مجھ کو تڑپنے کے لئے
اپنی یادوں کے تصور میں بھٹکنے کے لئے
جیسے اس دل سے ترا کوئی بھی رشتہ ہی نہ تھا
جیسے تو نے کبھی میرے لئے سوچا ہی نہ تھا
پھر بھی اے جان وفا تیری محبت کی قسم
تیری چاہت کی قسم تیری رفاقت کی قسم
مری آنکھوں میں ترے خواب روشن ہیں اب ابھی
مری دھڑکن میں بسی ہے تری دھڑکن اب بھی
میری آنکھوں میں بسی ہے تری صورت اب بھی
میرے خوابوں میں سجی ہے تری مورت اب بھی
میں جلاتا ہوں تیری راہ میں آنکھوں کے چراغ
میں سجاتا ہوں تیری چاہ میں یادوں کے چراغ
میرے محبوب تجھے اس کا یقین ہو کہ نہ ہو

 سچ کے ہاتھوں پہ لہو جھوٹ کا دیکھا ہم نے
اچھے اچھوں کا بھرم ٹوٹتا دیکھا ہم نے
گل کے چہرے پہ لہو خار کا دیکھا ہم نے
پیار کے ہاتھ لہو پیار کا دیکھا ہم نے
ہم نے دیکھا بدن خار کو زخمی ہوتے
یار کے لب سے دل یار کو زخمی ہوتے
ہم نے شمشیر بکم دست حنائی دیکھے
سرخی خوں سے ڈر جائیں قصائی دیکھے
سینہ ظلم سے آہوں کے بگولے دیکھے
ہم نے کلیوں سے نکلتے ہوئے شعلے دیکھے

ہم نے پھولوں کو خزاؤں میں بھی کھلتے دیکھا
ہم نے سورج کو گھٹاؤں سے نکلتے دیکھا
ہم نے شبنم سے سلگتے ہوئے گلشن دیکھے
ہم نے سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے ایندھن دیکھے
ہم نے دیکھا ہے چراغوں سے اندھیرا ہوتے
ہم نے دیکھا ہے اندھیروں سے سویرا ہوتے
ہم نے دیکھا ہے بہاروں کو چمن میں لٹتے
ہم نے دیکھا ہے ہزاروں کو وطن میں لٹتے
ہم نے نفرت میں بدلتے ہوئے چاہت دیکھی
ہم نے تکلیف میں ڈھلتے ہے راحت دیکھی
ہم نے ہوتے ہوے مغلوب شکاری دیکھا
ہم نے دیتے ہوے خیرات بھکاری دیکھا
ہم نے دیکھا ہے بہاروں کو خزاں میں ڈھلتے
ہم نے دیکھا ہے ترنم کو فغاں میں ڈھلتے
ہم نے دیکھا ہے اندھیروں کو چمک پر چھاتے
ہم نے دیکھا ہے گھٹاؤں کو فلک پہ چھاتے
ہم نے ظالم کو بھی مظلوم بنے دیکھا
ہم نے ہشیار کو معصوم بنے دیکھا
ہم نے قاتل کو بھی مقتول بنے دیکھا
ہم نے نے گمنام کو مقبول بنے دیکھا
ہم نے مظلوم کو دیکھا ہے چڑھائی کرتے
ہم نے کمزور کو دیکھا ہے لڑائی کرتے
ہم نے دیکھا ہے ستاروں میں روش سورج کی
ہم نے پائی ہے گھٹاؤں میں تپش سورج کی
ہم نے دیکھا ہے شریفوں کو بدی میں گرتے
ہم نے دیکھا ہے سمندر کو ندی میں گرتے
ہم نے تکلیف کو دیکھا ہے ترنم میں چھپے
ہم نے افسوس کو دیکھا ہے تبسم میں چھپے
ہم نے دیکھا ہے محبت میں چھپی نفرت کو
ہم نے دیکھا ہے تغافل میں چھپی چاہت کو

ہم نے تقدیر کے ہاتھوں میں سکندر دیکھے
ہم نے تدبیر کے ہاتھوں میں مقدر دیکھے
ہم نے آندھی سے اکھڑتے ہوے برگد دیکھے
ہم نے شاہوں کو جھکاتے ہوے سرمد دیکھے
ہم نے حیوان کو انسان پہ مرتے دیکھا
خون انسان کا انسان کو کرتے دیکھا
پھر بھی ہم نے نہیں جانا کہ زمانہ کیا ہے
جینا کیا چیز ہے مرنے کا بہانہ کیا ہے

Make a Free Website with Yola.