urdu hai jis ka nam

خودی  کو  کر  بلند  اتنا  کہ  ہر  تقدیر  سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 

خودی کا سر نہاں لاالہ الا الله

خودی ہے تیغ ،فساں لا الہ الا الله

یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا الله

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں ، لا الہ الا الله

یہ مال و دولت یہ دنیا،یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں ، لا الہ الا الله

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں ،لا الہ الا الله

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں ،لا الہ الا الله

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا الله

*********************

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو





یارب دِل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے

پھر وادئ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے

محرومِ تماشا کو پھر دیدہء بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادے

بھٹکے ہوئے آہو کو، پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو، پھر وسعتِ صحرا دے

پیدا دِل ویراں میں، پھر شورشِ محشر کر
اس محملِ خالی کو، پھر شاھدِ لیلا دے

اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغ محبت دے، جو چاند کو شرما دے

رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریّا کر
خوددارئ ساحل دے، آزادی دریا دے

بے لوث محبت ہو، بیباک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر، دل صورتِ مینا دے

احساس عنایت کر آ ثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہء فردا دے

میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے

 

 
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے در افشاں ہونا
ناقۂ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا
غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا
رونق بزم جوانان گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
سبزۂ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں
چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے

*******************************

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟
کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟
آزار موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟
غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی!
 


دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت ، خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلھن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل ، وہ صبح کی مؤذن
میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو ، نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں ، شاید انھیں جگا دے

 
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری
الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
حیات جاوداں میری ، نہ مرگ ناگہاں میری!
مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری

****************

 جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی
رنگیں نوا بنایا مرغان بے زباں کو
گل کو زبان دے کر تعلیم خامشی دی
نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
رنگیں کیا سحر کو، بانکی دلھن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی
یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری
جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشئ ازل ہو

******************************


کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا

٭ ٭ ٭ ٭
 

 
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں

٭ ٭ ٭ ٭

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے
واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو ، اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی ، حرم بھی ، کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں ، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم!
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
 

روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ یہ صحرا ، یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے

ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

تعمیر خودی کر ، اثر آہ رسا دیکھ!

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں

جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
نت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں

اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے

تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے

ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا ، دیکھ!

 

مہر روشن چھپ گیا ، اٹھی نقاب روئے شام
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام
یہ سیہ پوشی کی تیاری کس کے غم میں ہے
محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر
ساحر شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر
غوطہ زن دریاۓ خاموشی میں ہے موج ہوا
ہاں ، مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا
دل کہ ہے بے تابئ الفت میں دنیا سے نفور
کھنچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور
منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں
تھم ذرا بے تابی دل! بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آ نسو گرانے دے مجھے
اے مے غفلت کے سر مستو ، کہاں رہتے ہو تم
کچھ کہو اس دیس کی آ خر ، جہاں رہتے ہو تم
وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکار عناصر کا تماشا ہے کوئی؟
آدمی واں بھی حصار غم میں ہے محصور کیا؟
اس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبور کیا؟
واں بھی جل مرتا ہے سوز شمع پر پروانہ کیا؟
اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟
یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل
شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگل جاتا ہے دل؟
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں
اس گلستاں میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟
اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے
روح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
کیا وہاں بجلی بھی ہے ، دہقاں بھی ہے ، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں ، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟
تنکے چنتے ہیں و ہاں بھی آشیاں کے واسطے؟
خشت و گل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟
امتیاز ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟
واں بھی کیا فریاد بلبل پر چمن روتا نہیں؟
اس جہاں کی طرح واں بھی درد دل ہوتا نہیں؟
باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے؟
یا رخ بے پردۂ حسن ازل کا نام ہے؟
کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تادیب ہے؟
کیا عوض رفتار کے اس دیس میں پرواز ہے؟
موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں ، کیا راز ہے ؟
اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے
علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟
دید سے تسکین پاتا ہے دل مہجور بھی؟
'لن ترانی' کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟
جستجو میں ہے وہاں بھی روح کو آرام کیا؟
واں بھی انساں ہے قتیل ذوق استفہام کیا؟
آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟
یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے

 

 

جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیرگیا نالۂ فریاد مرا

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !
بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !
چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !
تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟
آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !
شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟
عالمِ کیف ہے دانائے رموزِکم ہے
ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے
ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں
اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا !
نازشِ موسمِ گُل ، لالۂ صحرائی تھا !
جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !
کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو
ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !
ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے
طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو
بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدۂ حُور
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !
عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور
مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں، روح ہلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود
خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینۂ ہستی میں عملِ جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِ کَے بھی
یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائ صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلۂ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخل اسلام نمونہ ہے بردمندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
گڑبڑ
نخل شمع استی و در شعلہ دود ریشۂ تو
عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ سامان ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بوٗ قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے
اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا
گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
میرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریلِ امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن‘ نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
! قاری نظر آتا ہے‘ حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان‘ قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمٰن
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان


عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر ، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرت لعل بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ ، کیا ہوں میں
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو ، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں! 


اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو

نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو

پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے

ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے

آئی نئی ہوا چمن ہست و بود میں

اے درد عشق! اب نہیں لذت نمود میں

ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو

منت پذیر نالۂ بلبل کا تو نہ ہو!

خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو

پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو

پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا

اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا

گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو

آواز نے میں شکوۂ فرقت نہاں نہ ہو

یہ دور نکتہ چیں ہے ، کہیں چھپ کے بیٹھ رہ

جس دل میں تو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ

غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!

جویا نہیں تری نگہ نارسیدہ دیکھ

رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو

حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو

جس کی بہار تو ہو یہ ایسا چمن نہیں

قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں

یہ انجمن ہے کشتۂ نظارۂ مجاز

مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز

ہر دل مے خیال کی مستی سے چور ہے

کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طور ہے

*************** 

 رخصت اے بزم جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں
آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں
بسکہ میں افسردہ دل ہوں ، درخور محفل نہیں
تو مرے قابل نہیں ہے ، میں ترے قابل نہیں
قید ہے ، دربار سلطان و شبستان وزیر
توڑ کر نکلے گا زنجیر طلائی کا اسیر
گو بڑی لذت تری ہنگامہ آرائی میں ہے
اجنبیت سی مگر تیری شناسائی میں ہے
مدتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا
مدتوں بے تاب موج بحر کی صورت رہا
مدتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں میں
روشنی کی جستجو کرتا رہا ظلمت میں میں
مدتوں ڈھونڈا کیا نظارۂ گل خار میں
آہ ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں
چشم حیراں ڈھونڈتی اب اور نظارے کو ہے
آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے
چھوڑ کر مانند بو تیرا چمن جاتا ہوں میں
رخصت اے بزم جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں
گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں
آہ! یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں
ہم نشین نرگس شہلا ، رفیق گل ہوں میں
ہے چمن میرا وطن ، ہمسایۂ بلبل ہوں میں
شام کو آواز چشموں کی سلاتی ہے مجھے
صبح فرش سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے
بزم ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند
ہے دل شاعر کو لیکن کنج تنہائی پسند
ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں میں ؟
شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے
اور چشموں کے کنارے پر سلاتا ہے مجھے؟
طعنہ زن ہے تو کہ شیدا کنج عزلت کا ہوں میں
دیکھ اے غافل! پیامی بزم قدرت کا ہوں میں
ہم وطن شمشاد کا ، قمری کا میں ہم راز ہوں
اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں
کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے
دیکھتا ہوں کچھ تو اوروں کو دکھانے کے لیے
عاشق عزلت ہے دل ، نازاں ہوں اپنے گھر پہ میں
خندہ زن ہوں مسند دارا و اسکندر پہ میں 

*****************

 نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانب طور موسی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

٭ ٭ ٭ ٭

 لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو
آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!
اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے

٭ ٭ ٭ ٭

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی


٭ ٭ ٭ ٭

کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے
مدام گوش بہ دل رہ ، یہ ساز ہے ایسا
جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
سخن میں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے
یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے
تمیز لالہ و گل سے ہے نالۂ بلبل
جہاں میں وانہ کوئی چشم امتیاز کرے
غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے

٭ ٭ ٭ ٭
 

 

شکوہ

کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی

اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ جب پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟

قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے

توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی

کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ‘ھو اللہ احد’ کہتے تھے

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!

دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!

امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں ، مست مۓ پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب

طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!

تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی

پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !

سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟

وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

دور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ‘ھو’ بیٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !

عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں

قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!

لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں

کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں

چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں

یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!


تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا
دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا
سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
مطمئن ہے تو ، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آیئنۂ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے

***************************************** 


آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے!

میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے

*********************************** 

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے

ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے

وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے

بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب

ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں

اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں

اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

دانۂ نم خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں

ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو

شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں

میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!

پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے





******************************
مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے
عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے
موج ہے نام مرا ، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گرداب مجھے
آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا
خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا
میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے
جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے
زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں
وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

 سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے
بھلایا قصۂ پیمان اولیں میں نے
لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں
پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے
رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے
ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے
کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں
دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے
سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی
پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے
دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی
بسایا خطۂ جاپان و ملک چیں میں نے
بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے
لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئلۂ گردش زمیں میں نے
کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
لگا کے آئنۂ عقل دور بیں میں نے
کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو
بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے
مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی
کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے
ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر
تو پایا خانۂ دل میں اسے مکیں میں نے

**********************************************

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگا، وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
اقبال! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
  ******************************

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ

٭ ٭ ٭ ٭
 

 عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
ہم اپنی درد مندی کا فسانہ
سنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آواز اذاں سے

٭ ٭ ٭ ٭


انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے ، نوک سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا ، نرالے میرے نالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ، ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں


٭ ٭ ٭ ٭**************************
 


جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی
مکاں نکلا ہمارے خانۂ دل کے مکینوں میں
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائی سے
تو سنگ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق
بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں
پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے 'ما عرفنا' پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
خموش اے دل! ، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
برا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں

٭ ٭ ٭ ٭

 

 

ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں
تہي ، زندگي سے نہيں يہ فضائيں
يہاں سينکڑوں کارواں اور بھي ہيں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھي آشياں اور بھي ہيں
اگر کھو گيا اک نشيمن تو کيا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھي ہيں
تو شاہيں ہے ، پرواز ہے کام تيرا
ترے سامنے آسماں اور بھي ہيں
اسي روز و شب ميں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تيرے زمان و مکاں اور بھي ہيں
گئے دن کہ تنہا تھا ميں انجمن ميں
يہاں اب مرے رازداں اور بھي ہيں


سختیاں کرتا ہوں دل پر ، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں ، جاہل ہوں میں
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے محرومی! خزف چین لب ساحل ہوں میں
ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں
بزم ہستی! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں میں

٭ ٭ ٭ ٭

Make a Free Website with Yola.