الہیٰ کیا یہی ہے حاصل تقدیر انسانی
جدھر دیکھو پریشانی پریشانی پریشانی
جوانی کیا محبت کی یکایک شعلہ افشانی
محبت کیا ہے بس اک کافر نظر کی سحر ارزانی
بس اک ان کے نہ ہونے سے یہ بربادی یہ ویرانی
کسی نے لوٹ لی جیسے بہار بزم امکانی
تصویر ہے کہ اک شہر طلمسات بیابانی
نہ ہنگامہ نہ خاموشی نہ آبادی نہ ویرانی
مجھے سمجھا نہ اے ناصح تجھے سمجھا چکا ہوں میں
اگر اس پر بھی ظالم تو نہ سمجھے تیری نادانی
جو سچ پوچھو حقیقت میں وہی دل ہے کہ ہو جس میں
قیامت خیز جذبات محبت کی فراوانی
قید قفس میں مژدہ فصل بہار کیا
اڑتی ہوئی خبر ہے کریں اعتبار کیا
مایوس زندگی الم رازگار کیا
جینا تو خود ہی موت ہے جینے سے عارکیا
پنہاں ہیں قہقہوں میں صدائے شکست دل
دنیا اسی کانام ہے پروردگار کیا
آئینہ جمال ہے دنیا کے رنگ و بو
آغوش کا ئنات ہے آغوش یار کیا
وعدے اور اعتبار میں ہے ربط باہمی
اس ربط باہمی کا مگر اعتبار کیا
زخم نگاہ ناز سلامت رہے شکیل
سو بار مسکرائیں ہم ایک بار کیا