غم رہا، جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
دل نہ پہنچا گوشہء داماں تلک
قطرہء خوں تھا، مژہ پر جم رہا
سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا
جامہء احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں، لیک نامحرم رہا
زلفیں کھولیں تو تُو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کامِ دل برہم رہا
اُس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آبِ حیواں سم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میںتھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبحِ پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ جیتا یاں بہت دن کم رہا
*********************
فقیرانہ صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
کوئی نا امیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تیری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تعین کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
گئی عمر در بندہ فکر غزل
کہ اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا کوئی پوچھے ہم سے جو میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
**************************
پتہ پتہ بوٹا بوٹا ،حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر نادان بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے وقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارہ جانے ہے
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھ اسے
یار کے آجانے کو یکایک ،عمر دو بارہ جانے ہے
**************
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئ دل نے ، آخر کام تمام کیا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا ، سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ ،کیسا قبلہ، کون حرم ہے ، کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا میخانے میں
جبہ، خرقہ ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا
کاش اب برقع منہ سے اٹھاوے ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کی، یا دن کو جوں توں شام کیا
صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی
رخ سے گل کو مول لیا ، قامت سے سرو غلام کیا
ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے ،جوں جوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ، ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا