urdu hai jis ka nam

سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ

ہونا ہے تجھ کو میر سے استاذ کی طرح

سودا

اے مصحفی تو اور کہاں  شعر کا دعوا

بھپتا ہے یہ انداز سخن میر کے منہ پر

مصحفی

شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی پر
خود وہ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
ناسخ

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب

ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

ذوق

میر کے شعر کا احوال  کہوں کیا  غالب
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں
غالب 

تذکرے سب کے پھر رہیں گے دھرے

جب   میر ا   انتخاب   نکلے   گا

غم رہا، جب تک کہ دم میں دم رہا

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب

خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا

دل نہ پہنچا گوشہء داماں تلک

قطرہء خوں تھا، مژہ پر جم رہا

سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ

اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا

جامہء احرامِ زاہد پر نہ جا

تھا حرم میں، لیک نامحرم رہا

زلفیں کھولیں تو تُو ٹک آیا نظر

عمر بھر یاں کامِ دل برہم رہا

اُس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے

اپنے حق میں آبِ حیواں سم رہا

میرے رونے کی حقیقت جس میں‌تھی

ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبحِ پیری شام ہونے آئی میر

تو نہ جیتا یاں بہت دن کم رہا

*********************

فقیرانہ صدا کر چلے

میاں  خوش رہو ہم دعا کر چلے

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

کوئی نا امیدانہ کرتے نگاہ

سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے

بہت آرزو تھی گلی کی تیری

سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی

حق بندگی ہم ادا کر چلے

پرستش کی یاں تعین کہ اے بت تجھے

نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

گئی عمر در بندہ فکر غزل

کہ اس فن کو ایسا بڑا کر چلے

کہیں کیا کوئی پوچھے ہم سے جو میر

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے


**************************

پتہ پتہ بوٹا بوٹا ،حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں

کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں

جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں

ورنہ دلبر نادان بھی اس درد کا چارہ جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے وقف ان میں نہیں

اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارہ جانے ہے

عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھ اسے

یار کے آجانے کو یکایک ،عمر دو بارہ جانے ہے

**************

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیمارئ دل نے ، آخر کام تمام کیا

عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا

حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی

ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا ، سو مرنے کا پیغام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی

کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

کس کا کعبہ ،کیسا قبلہ، کون حرم ہے ، کیا احرام

کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سلام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا میخانے میں

جبہ، خرقہ ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا

کاش اب برقع منہ سے اٹھاوے ورنہ پھر کیا حاصل ہے

آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا

یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے

رات کو رو رو صبح کی، یا دن کو جوں توں شام کیا

صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی

رخ سے گل کو مول لیا ، قامت سے سرو غلام کیا

ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے

بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے

استغنا کی چوگنی ان نے ،جوں جوں میں ابرام کیا

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی

سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ، ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا

 کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا


کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا

خَزَف سے لے کے دیکھا دُرِ تر تک

جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے

اُسے پھر خاک ہی پایا سحَر تک

گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق

کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک

دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں

اگر رہ جائیں گے جیتے ، سَحر تک

کہاں پھر شور و شیون جب گیا میر

یہ ہنگامہ ہے اُس ہی نوحہ گر تک
************
کیا بلبلِ اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم

کیا بلبلِ اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم
جیتے ہیں تو دکھاویں گے دعوائے عندلیب
گُل بِن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم
یہ تیغ ہے، یہ طشت ہے، یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم
تلواریں تم لگاتے ہو، ہم ہیں گے دم بہ خود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگزر کہ ہم
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا دربدر کہ ہم
***********


کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمعِ تصویر ہیں، خاموش جلا کرتے ہیں
اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے، بیٹھے سنا کرتے ہیں
رخصتِ جنبشِ لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گزریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں
تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعویِ مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں
فرصتِ خواب نہیں ذکرِ بُتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو بُرا اپنا، بھلا کرتے ہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تُو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بے کار پھرا کرتے ہیں!
تجھ بن اس جانِ مصیبت زدہ، غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیں*کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لہو پیا کرتے ہیں
************
اس کے کوچے سے جو اُٹھ اہلِ وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے، رُو بہ قفا جاتے ہیں
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتشِ دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
وقتِ خوش اُن کا جو ہم بزم ہیں تیرے، ہم تو
درودیوار کو احوال سنا جاتے ہیں
جائے گی طاقتِ پا آہ تو کر لے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں
ایک بیمارِ جدائی ہوں میں آپھی تِس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
میر صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں
*************
کرتے نہیں دُوری سے اب اُس کی باک ہم
نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم
آہستہ اے نسیم کہ اطراف باغ کے
مشتاقِ پرفشانی ہیں اک مشتِ خاک ہم
شمع و چراغ و شعلہ و آتش، شرار و برق
رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم
مستی میں ہم کو ہوش نہیں نشاء تین کا
گلشن میں اینڈتے ہیں پڑے زیرِ تاک ہم
جوں برق تیرے کُوچے سے ہنستے نہیں گئے
مانندِ ابر جب اُٹھے تب گریہ ناک ہم
مدت ہوئی کہ چاکِ قفس ہی سے اب تو میر
دکھلا رہے ہیں گُل کو دلِ چاک چاک ہم
**********
شوق ہے، تو ہے اُس کا گھر نزدیک
دوریِ رہ ہے راہبر نزدیک
آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک
دُور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیش تر نزدیک
خبر آتی ہے سو بھی دُور سے یاں
آؤ یک بار بے خبر نزدیک
دُور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک
مر بھی رہ میر، شب بہت رویا
ہے مری جان، اب سَحر نزدیک
***********
گل کی جفا بھی جانی دیکھی وفائے بلبل
یک مشت پر پڑے ہیں گلشن میں جائے بلبل
کر سیر جذبِ الفت گُل چیں نے کل چمن میں
توڑا تھا شاخ گُل کو نکلی صدائے بلبل
کھٹکے ہیں خار ہو کر ہر شب دلِ چمن میں
اتنے لب و دہن پر، یہ نالہ ہائے بلبل
یک رنگینوں کی راہیں طے کرکے مرگیا ہے
گُل میں رگیں نہیں یہ ہیں نقشِ پائے بلبل
آئی بہار ، گلشن گُل سے بھرا ہے لیکن
ہر گوشہء چمن میں خالی ہے جائے بلبل
پیغام بے غرض بھی سنتے نہیں ہیں*خوباں
پہنچی نہ گوشِ گُل تک آخر دعائے بلبل
یہ دل خراش نالے ہر شب کو میر تیرے
کردیں گے بے نمک ہی شورِ نوائے بلبل
***************
بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
رات تو تھوڑی ہے، بہت ہے سانگ
عشق کا شور کوئی چھُپتا ہے
نالہء عندلیب ہے گُل بانگ
کس طرح اُن سے کوئی گرم ملے
سیم تن پگھلے جاتے ہیں جوں رانگ
نقرہ باطل تھا طور پر اپنے
ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ
میر بندوں سے کام کب نکلا
مانگتا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
**********
فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل
چھانی چمن کی خاک، نہ تھا نقشِ پائے گُل
اللہ رے عندلیب کی آوازِ دل خراش
جی ہی نکل گیا، جو کہا اُن نے ہائے گُل
مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ
یہ چشمکِ پیالہ ہے ساقی ہوئے گل
بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے
اے گُل فروش کریو سمجھ کر بہائے گل
نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رُو کی یہ
قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل
بارے سر شکِ سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پراپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گُل
آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی
لے اے زبان دراز تو سب کچھ ہوائے گُل
گُل چیں سمجھ کے چنُیو کہ گلشن میں میر کے
لختِ جگر پڑے ہیں،نہیں برگ ہائےگُل
**************
مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
اس مہلتِ دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلب گار آج کل
ملنے کی رات داخلِ ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل
گلزار ہو رہی ہے مرے دم سے کُوئے یار
اک رنگ پر ہے دیدہء خوں بار آج کل
کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانہء خمار آج کل
حیران میں ہی حال کی تدبیر میں* نہیں
ہر اک شہر میں ہے یہ آزار آج کل
اچھا نہیں ہے میر کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل

************
آئے تو ہو طبیاں، تدبیر گر کرو تم
ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
رنگِ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
اک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم
اُس بزمِ خوش کے محرم نا آشنا ہیں سارے
کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم
ہے پیچ دار از بس راہِ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم
یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گزرے
سوگند ہے تمہیں اب جو درگزر کرو تم
روئے سخن کہاں*تک غیروں کی اور آخر
ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم
(ق)
ہو عاشقوں میں اُس کے تو آؤ میر صاحب
گردن کو اپنی مُو سے باریک تر کرو تم
کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے
سینہ سپر کریں ہم، قطعِ نظر کرو تم
*****************

جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم
ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں
پھاٹے میں پاؤں دینے کو آئے کہاں سے تم
اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں
کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم
جاؤ نہ دل سے، منظرِ تن میں ہے جا یہی
پچھتاؤ گے، اُٹھو گے اگر اس مکاں سے تم
قصہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند
آرامِ چشم مت رکھو اس داستاں سے تم
کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مرجائے گا کوئی
آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم
رہتے نہیں ہو بِن گئے میر اُس گلی میں رات
کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم



ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے

پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز

اُسی خانہ خراب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

 *************

جس سر کو غرور آج ہےياں تاج وري کا

کل اس پر يہيں شور ہے پھر نوحہ گري کا

شرمندہ ترے رخ ہے رخسار پري کا

چلتا نہيں کچھ آگے ترے کبک وري کا

آفاق کي منزل سے گيا کون سلامت

اسباب لٹا راہ ميں ياں سر سفري کا

زنداں ميں بھي شورش نہ گئي اپنے جنوں کي

اب سنگ مداوا ہے اس آتنتہ سري کا

اپني تو جہاں آنکھ لڑي پھر وہيں ديکھو

آسينے کو لپکا ہے پريشاں نظري کا

صد موسم گل ہم کو تہ بال ہي گزرے

مقدمہ ورنہ ديکھا کبھو بے بال و پري کا

اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو

ٹکڑا ہے بڑا اشک عقيق جگري کا

کل سير کا ہم نے سمندر کو بھي جاکر

تحادست نگر پنجہ مثر گاں کي تري کا

لے سانس بھي آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کي اس کار گہ شيشہ گري کا

ٹک ميرے جگر سوختہ کي جلد خبر لے

کيا يار بھروسا بے چراغ سحري کا

 

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

خانہء دل سے زنہار نہ جا

کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے

نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا

شور ایک آسماں سے اٹھتا ہے

لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں

ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز

دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق میر اک بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے






مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی

کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی

کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی

نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی

عمامہ جا نماز گئے لے کے مغ بچے
واعظ کی اب لباسِ کرامات بھی گئی

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں

عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں

قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں

ہو کے عاشق ترے، جان و دل و دیں کھو بیٹھے
جیسا کرتا ہے کوئی ویسا ہی پاتا ہے میاں

حسن یک چیز ہے ہم ہوویں کہ تُو ہو ناصح
ایسی شے سے کوئی بھی ہاتھ اٹھاتا ہے میاں

جھگڑا اس حادثے کا کوہ گراں سنگ کو بھی
جوں پرِ کاہ اڑا ہی لیے جاتا ہے میاں

کیا پری خوں ہے جو راتوں کو جگاوے ہے میر
شام سے دل، جگر و جان جلاتا ہے میاں
 

لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے

برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے

جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے

قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے

سوبار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے

چھاتی کہ جلنے کی ہے شاید کہ آگ سلگے
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے

نکلا سو سب چلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہالِ خواہش برگ و گل و ثمر سے

جھڑ باندھنے کا ہم بھی دینگے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آ کر آگے ہماری بر سے

سو نامہ بر کبوتر کر ذبح اُن نے کھائے
خط چاک اڑے پھرے ہیں اس کی گلی میں پر سے

آخر گرسنہ چشمِ نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اسکی برسوں مہینوں ترسے

اپنا وصول مطلب اور ہی کسو سے ہو گا
منزل پہونچ رہیں گے ہم ایسی رہ گزر سے

سردے دے مارتے ہیں ہجراں میں میر صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے دردِ سر سے
 

گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے

میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے

صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے

رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے

خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں خرابیاں
اپنا ہو بس تو دل نہ کسو سے لگائیے

اے ہمدم ابتدا سے ہے آدم کشی میں عشق
طبع شریف اپنی نہ ایدھر کو لائیے

اتنی بھی کیا ہے دیدہ درائی کہ غیر سے
آنکھیں لڑائیے، ہمیں آنکھیں دکھائیے

مچلا ہے وہ تو دیکھ کے لینا ہے آنکھیں موند
سوتا پڑا ہو کوئی تو اوسکو جگائیے

جانِ غیّور پر ہے ستم سا ستم کہ میر
بگڑا جنہوں سے چاہیے ان کو منائیے
 

طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی

نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے
بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی

نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی

مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی

گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی

انہی نے پردے میں کی شوخ چشمی
بہت ہم نے تو آنکھوں کی حیا کی

ہوا طالع جہاں خورشید دن ہے
تردد کیا ہے ہستی میں خدا کی

پیام اس گل کو پہونچا پھر نہ آئے
نہ خوش آئی میاں گیری* صبا کی

"جفائیں سہیے گیا" کہتے تھے اکثر
ہماری عمر نے پھر گر وفا کی

جواں ہونے کی اس کی آرزو تھی
سو اب باری ہمیں سے یہ جفا کی

(قطعہ)
گیا تھا رات دروازے پہ اس کے
فقیرانہ دعا کر جو صدا کی

لگا کہنے کہ یہ تو ہمنشیناں
صدا ہی دل خراشی سے گدا کی

رہا تھا دیکھ جو پہلے نگہ کر
ہمارے میر ، دل میں ان نے جا کی

ملا اب تو نہ وہ ملنا تھا اس کا
نہ ہم سے دیر آنکھ اس کی ملا کی
 

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے

سودائی و رسوا و شکستہ دل و خستہ
اب لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے

دیکھے سے کہے کوئی نہیں جرم کسو کا
کہتے ہیں بجا لوگ بھی بیجا نہ کہیں گے

ہوں دربدر و خاک بسر، چاک گریبان
اسطور سے کیونکر مجھے رسوا نہ کہیں گے

ویرانی کی مدت کی کوئی کیا کرے تعمیر
اجڑی ہوئی آبادی کو ویرانہ کہیں گے

میں رویا کڑھا کرتا ہوں دن رات جو درویش
من بعد مرے تکیہ کو غم خانہ کہیں گے

موقوف غم میر کہ شب ہو چکی ہمدم
کل رات کو پہر باقی یہ افسانہ کہیں گے

 
Make a Free Website with Yola.