urdu hai jis ka nam

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں

پاؤں  پھیلاؤں  تو  دیوار  سے  سر  لگتا  ہے

اس در کا دربان بنادے یااللہ

مجھ کو بھی سُلطان بنادے یا اللہ

اُن آنکھوں سے تیرے نام کی بارش ہو

پتھر ہوں انسان بنادے یااللہ

سہما دل ، ٹوٹی کشتی ، چڑھتا دریا

ہر مُشکل آسَان بنادے یا اللہ

میں جب چاہو ں جھانک کے تجھ کو دیکھ سکوں

دل کو روشن دان بنادے یااللہ

میرا بچہ سادہ کاغذجیسا ہے

اک حرفِ ایمان بنادے یااللہ

 

 خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ھواؤں میں
مانگا تھے جسے دن رات ھواؤں میں
تم چھت پر نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا
یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں
اس شہر میں اک لڑکی بالکل ھے غزل جیسی
بجلی سی گھٹاؤں میں خوشبو سی ھواؤں میں
موسم کا اشارہ ھے خوش رہنے دو بچوں کو
معصوم محبت ھے پھولوں کی خطاؤں میں
ھم چاند ستاروں کی راھوں کے مسافر ھیں
ھر رات چمکتے ھیں تاریک خلاؤں میں
بھگوان ھی بھیجیں گے چاول سے بھری تھالی
مظلوم پرندوں کی معصوم سبھاؤں میں
دادا بڑے بھولے تھے سب سے یہی کہتے تھے
کچھ زہر بھی ھوتا ھے انگریزی دواؤں میں



کسی کی یاد میں پلکیں ذرا بھگو لیتے
اُداس رات کی تنہَائیوں میں رولیتے
دُکھوں کا بوجھ اکیلے نہیں سنبھلتا ہے
کہیں وہ ملتا تو اس سے لپٹ کے رو لیتے
اگر سفر میں ہمارا بھی ہمسفر ہوتا
بڑی خوشی سے انہی پتھروں پہ سو لیتے
تمہاری راہ میں شاخوں پہ پُھول سُوکھ گئے
کبھی ہوا کی طرح اس طرف بھی ہو لیتے
یہ کیا کہ رووز وہی چاندنی کا بستر ہو
کبھی تو دپھوپ کی چادر بچھا کے سولیتے


 

یہ خلاء عرش بریں نہیں، کہاں پاؤں رکھوں زمیں نہیں
ترے در پہ سجدے کا شوق ہے، جو یہاں نہیں تو کہیں نہیں
کسی بُت تراش نے شہر میں مُجھے آج کتنا بد ل دیا
میرا چہرہ میرا نہیں رہا، یہ جبیں بھی میری جبیں نہیں
ہے ضرور اس میں بھی مصلحت ، وہ جو ہنس کے پو چھے ہے خیریت
کہ محبتوں میں غرض نہ ہو، نہیں ایسا پیار کہیں نہیں
وہیں دردو غم کا گلاب ہے، جہاں کوئی خانہ خراب نہیں
جسے جھُک کے چاند نہ چوم لے، وہ محبتوں کی زمیں نہیں
تری زُلف زُلف سجاؤں کیا ، تجھے خواب خواب دِکھاؤں کیا
میں سفر سے لوٹ لے آؤں ، مجھے خود بھی اس کا یقین نہیں

 

دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں

ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفرکرتے ہیں

جب سراپے پہ کہیں اس کی نظر کرتے ہیں

میر صاحب کی طرح عمر بسر کرتے ہیں

بندش ہم کو کسی حال گوارہ ہی نہیں

ہم تو وہ لوگ ہیں دیوار کو در کرتے ہیں

وقت کی تیزا خرامی ہمیں کیا روکے گی

جنبش قلق سے صدیوں کا سفر کرتے ہیں

نقش پا اپنا کہیں راہ میں ہوتا ہی نہیں

سر سے کرتے ہیں مہم جب کوئی سر کرتے ہیں

ہمنشیں خوب ہے یہ محفل یاراں کہ یہاں

وہ سلیقہ ہے کہ عیبوں کو ہنر کرتے ہیں

کیا کہیں حال تیرا اے متمدن دنیا

جانور بھی نہیں کرتے ،جو بشر کرتے ہیں

ہم کو دشمن کی بھی تکلیف گوارہ نہ ہوئی

لوگ احباب سے بھی صرف نظر کرتے ہیں

مرقدوں پہ تو چراغاں ہے شب و روز مگر

عمر کچھ لوگ اندھیروں میں بسر کرتے ہیں

تذکرہ میر کا غالب  کی زباں تک آیا

اعتراف ہنر ارباب ہنر کرتے ہیں 


جو دُکھ سُکھ بانٹ سکے ،ہم اس کو عورت کہتے ہیں
ورنہ ہر اچھی صورت کو پتھر کی مورت کہتے ہیں
یہ رام جنم بھومی کا لہو، یہ بابری مسجد کی لاشیں
تم اُن کو مذہب کہتے ہو، ہم وحشی سَیاست کہتے ہیں
اس ملک میں ہندو ، مسلم، سکھ، سب پاگل ہوتے جاتے ہیں
ملّا ، پنڈت، نیتا اس کو اللہ کی رحمت کہتے ہیں
دُنیا کے اُجلے کرُتے سے ہم نے تو جوتے پونچھ لیے
وہ شاعر ہیں جورُسوائی کو اپنی شہرت کہتے ہیں

 
سُن لی خُدا نے وہ دُعا تم تو نہیں ہو
دروازے پہ دستک کی صدا تم تو نہیں ہو
سمٹی ہوئی شرمائی ہوئی رات کی رانی
سوئی ہوئی کلیوں کی حیا تم تو نہیں ہو
محسوس کیا تم کو تو گیلی ہوئیں پلکیں
بھیگے ہوئے موسم کی ادا تم تو نہیں ہو
ان اجنبی راہوں میں نہیں کوئی بھی میرا
کِس نے مجھے یوں اپنا کہا ، تم تو نہیں ہو


 

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے
یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے
لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے
یوں یاد تری شب بھر سینے میں سُکگتی ہے
یُوں پیار نہیں چھپتا ، پلکوں کے جھکانے سے
آنکھوں کے لفافوں میں تحریر چمکتی ہے
خوش رنگ پرندوں کے لوٹ آنے کے دن آئے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں جب برف پگھلتی ہے
شہرت کی بُلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو، وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

آزاد کردے اپنا گرفتار میں ہی ہوں
سر پر لٹک رہی ہے جو تلوار میں ہی ہوں
ہندوستاں کا سچا وفادار میں ہی ہوں
قبروں سے پوچھ اصل زمیندار میں ہی ہوں
دریا کے ساتھ وہ تو سمندر میں بہہ گیا
مٹی میں مِل کے مٹی کا حقدار میں ہی ہوں
اپنی غزل سے کِس کا کلیجہ نکال لُوں
نغموں کی دھا ر ، شعر کی تلوار میں ہی ہوں
اس بیسویں صدی میں تھے فیضو فراق بھی
اکیسو یں صدی کا اداکار میں ہی ہوں
اپنے سوا کسی سے محبت نہیں مجھے
غالب بہت شریف تھے مکار میں ہی ہوں
کیا واسطہ غزل کو پرانے عروض سے
اندھے مجھے ٹٹول کہ فنکار میں ہی ہوں

***********

 

پا س سے رہ کر جُداسی لگتی ہے
زندگی بے وفا سی لگتی ہے
میں تمہارے بغیر بھی جی لوں
یہ دُعا، بد دُعا سی لگتی ہے
نام اس کا لکھا ہے آنکھوں پر
آنسوؤں کی خطا سی لگتی ہے
وہ ابھی اس طرف سے گُزرا ہے
یہ زمیں آسماں سی لگتی ہے
پیار کرنا بھی جُرم ہے شاید
آج دُنیاخفا سی لگتی ہے

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے 

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا

تمہیں جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں

جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں

جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو

اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے

یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو 

 

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے
پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں‌سوتے میں‌ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے
یارو نئے موسم نے یہ احسان کیئے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں‌آتے
اس شہر کے بادل تیری زلفوں کیطرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں‌ آتے
احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے

 

Make a Free Website with Yola.