urdu hai jis ka nam

 محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو جا زہر یہ پی لیا میں نے
ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
انہیں اپنا نہیں سکتا ،مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسین خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے
بس اب تو دامن دل  چھوڑ دو بیکار امیدو !
بہت دکھ سہ لئے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

تنگ آچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسی مآل محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا  رشتہ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
الله رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

تاج تیرے لئے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادی رنگین سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی ؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی  ؟

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے انکے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستون
سینہ دہرکے ناسور  ہیں  کہنہ ناسور 
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خون

میری محبوب ! انہیں بھی تو  محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ  کسی نے  قندیل

یہ چمن زار ،یہ جمنا  کا کنارہ ،یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے*

مرے سرکش ترانے سن کے دنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شائد میرے دل کو عشق کے نغموں سے نفرت ہے
مجھے ہنگامہ جنگ و جدل میں کیف ملتا ہے
مری فطرت کو خون ریزی کے افسانے سے رغبت ہے
مری دنیا میں کچھ وقعت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
مرا  محبوب نغمہ شور آہنگ بغاوت ہے
مگر اے کاش وہ دیکھیں مری پرسوز راتوں کو
میں جب تاروں پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں
تصور بن کے بھولی وارداتیں یاد آتی ہیں
تو سوز و درد کی شدت سے پہروں تلملاتا ہوں
کوئی خوابوں میں خوابیدہ امنگوں کو جگاتی ہے
تو اپنی زندگی کو موت کے پہلو میں پاتا ہوں
میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا دل دشمن نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں ،جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مری باتوں میں رنگ پارسائی ہو نہیں سکتا
مرے سر کش ترانوں کی حققیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں ،بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں مفلسوں کو ،بے کسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو ،تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تاب نشاط بزم عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا






پرچھائیاں

جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل رہا ہے کسی خواب مر مریں کی طرح
حسین پھول ، حسین پتیاں، حسین شاخیں
لچک  رہی ہیں  کسی جسم نازنیں کی طرح
فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط
زمین حسین ہے خوابوں کی سرزمیں کی طرح
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
کبھی گمان کی صورت کبھی یقین کی طرح
وہ پر جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے
کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح

انہی کے سائے میں پھر آج دو دھڑکتے دل
خموش ہونٹوں سے کچھ کہنے سننے آئے ہیں
نہ جانے کتنی کشاکش سے ، کتنی کاوش سے
یہ سوتے جاگتے لمحے چرا کے  لائے ہیں
یہی فضا تھی ،یہی رت ،یہی زمانہ تھا
یہیں سے ہم نے محبت کی ابتدا کی تھی
دھڑکتے دل سے ،لرزتی ہوئی نگاہوں سے
حضور غیب میں ننھی سی التجا کی تھی
کہ آرزو کے کنول کھل کے پھول ہو جائیں
دل و نظر کی دعائیں قبول ہو جائیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

تم آرہی ہو زمانے کی آنکھ سے بچ کر
نظر جھکائے ہوئے اور بدن چرائے ہوے
خود اپنے قدموں کی اہت سے جھینپتی ڈرتی
خود اپنے سائے کی جنبش سے خوف کھاۓ ہوئے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
رواں ہے چھوٹی سی کشتی ہواؤں کے رخ پر
ندی کے ساز پہ ملاح گیت گاتا ہے
تمہارا جسم ہر اک لہر کے جھکولے سے
مری کھلی ہوئی باہوں  میں جھول جاتا ہے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
میں پھول ٹانک رہا ہوں تمہارے جوڑے میں
تمہاری آنکھ مسرت سے جھکی جاتی ہے
نہ جانے آج میں کیا بات کہنے والا ہوں
زبان خشک ہے آواز رکی جاتی ہے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
مرے گلے میں تمہاری گداز باہیں ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ میرے لبوں کے سائے ہیں
مجھے یقین ہے کہ اب ہم کبھی نہ بچھڑیں گے
تمہیں گمان کہ ہم مل کے بھی پرائے ہیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

 
مرے پلنگ پہ بکھری ہوئی کتابوں کو
ادائے عجز و کرم سے اٹھا رہی ہو تم
شاگ رات ڈھولک پہ جو گیت گئے جاتے ہیں
دبے سروں میں وہی گیت گا رہی ہو تم
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
وہ لمحے کتنے دلکش تھے وہ گھڑیاں کتنی پیاری تھیں
وہ سہرے کتنے نازک تھے وہ لڑیاں کتنی پیاری تھیں
بستی کی ہر اک شاداب گلی خوابوں کا جزیرہ تھی گویا
ہر موج نفس ،ہر موج صبا، نغموں کا ذخیرہ تھی گویا

ناگاہ لہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں
بارود کی بوجھل بو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں
تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا
ہر گاؤں میں وحشت ناچ اٹھی ،ہر شہر میں جنگل پھیل گیا
مغرب کے مہذب ملکوں سے کچھ خاکی وردی پوش آئے
اٹھلاتے ہوے مغرور آئے ، لہراتے ہوے مدہوش آئے
خاموش زمیں کے سینے میں خیموں کی طنابیں گَڑنے لگیں
مکھن سی ملائم راہوں پر ،بوٹوں کی خراشیں پڑنے لگیں
فوجوں کی بھیانک بینڈ تلے ،چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں
جیپوں کی سلگتی دھول تلے پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں
انسان کی قیمت گرنے لگی اجناس کے بھاؤ چڑھنے لگے
چوپال کی رونق گھٹنے لگی ،بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے
بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے
جس راہ پہ کم ہی لوٹ سکے اس راہ پہ راہی جانے لگے
ان جانے والے دستوں میں ،غیرت بھی گئی برنائی بھی
ماؤں کے جواں بیٹے بھی گئے ،بہنوں کے چہیتے بھائی بھی
بستی پہ اداسی چھانے لگی ،میلوں کی بہاریں ختم ہوئیں
آموں کی لچکتی شاخوں سے جھولوں کی قطاریں ختم ہوئیں
دھول اڑنے لگی بازاروں میں ،بھوک اگنے لگی کھلیانوں میں
ہر چیز دکانوں سے آٹھ کر روپوش ہوئی تہ خانوں میں
بدحال گھروں کی بدحالی بڑھتے بڑھتے جنجال بنی
مہنگائی بڑھ کر کال بنی ، ساری بستی کنگال بنی
چرواہیاں رستہ بھول گئیں ،پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں
کتنی ہی کنواریں ابلائیں ،ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں
افلاس زدہ دہقانوں کے ہل بیل بکے کھلیان بکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے
کچھ بھی نہ رہا جب بکنے کو جسموں کی تجارت ہونے لگی
خلوت میں بھی جو ممنوع تھی وہ جلوت میں جسارت ہونے لگی

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

تم آرہی ہو سر شام بال بکھرائے
ہزار گونہ ملامت کا بار اٹھائے ہوئے
ہوس پرست نگاہوں کی چیرہ دستی سے
بدن کی جھینپتی عریانیاں چھپائے ہوئے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
میں شہر جا کے ہراک در پہ جھانک آیا ہوں
کسی جگہ مری محنت کا مول مل نہ سکا
ستمگروں کے سیاسی قمار خانے میں
الم نصیب فراست کا مول مل نہ سکا
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
تمہارے گھر میں قیمت کا شور برپا ہے
محاذ جنگ سے ہر کارہ، تار ، لایا ہے
کہ جس کا ذکر تمہیں زندگی سے پیارا تھا
وہ بھائی ،،نرغہ دشمن ،، میں کام آیا ہے
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
ہر ایک گام پہ بدنامیوں کا جمگھٹ ہے
ہر اک موڑ پر رسوائیوں کے میلے ہیں
نہ دوستی ،نہ تکلف ،نہ دلبری ،نہ خلوص
کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
وہ رہگزر جو مرے دل کی طرح سونی ہے
نہ جانے تم کو کہاں لےکے جانے والی ہے
تمہیں خرید رہے ہیں ضمیر کے قاتل
افق پہ خون تمنائے دل کی لالی ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی  وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے
اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں
سہمی ہوئی دوشیزاؤں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا اس کارگہ زرداری میں
دو بھولی بحالی روحوں کی پہچان  بھی بیچی جاتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا جب بھائی جنگ میں کم آئیں
سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

تم آج ہزاروں میل یہاں سے دور کہیں تنہائی میں
یا بزم طرب آرائی میں
میرے سپنے بنتی ہوگی بیٹھی آغوش پرائ میں
اور میں سینے میں غم لے کر دن رات مشقت کرتا ہوں
جینے کی خاطر مرتا ہوں
اپنے فن کو رسوا کر کے اغیار کا دامن بھرتا ہوں
مجبور ہوں میں ،مجبور ہو تم ،مجبور یہ دنیا ساری ہے
تن کا دکھ من پر بھاری ہے
اس دور میں جینے کی قیمت یا دار و رسن یا خواری ہے
میں دار و رسن تک جا نہ سکا تم جہد کی حد تک آ نہ سکیں
چاہا تو مگر اپنا نہ سکیں
جینے کو جئے جاتے ہیں مگر سانسوں میں چتائیں جلتی ہیں
خاموش وفائیں جلتی ہیں
اور آج جب ان پیڑوں کے تلے پھر دو سائے لہرائے ہیں
پھر دو دل ملنے آئے ہیں
پھر موت کی اندھی اٹھی ہے پھر جنگ کے بدل چھائے ہیں
میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جنوں ناکام نہ ہو
ان کے بھی مقدر میں لکھی ،اک خون سے لتھڑی شام نہ ہو
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

ہمارا پیار حوادث کی تاب لا نہ سکا
مگر انہیں تو مرادوں کی رات مل جائے
ہمیں تو کشمکش مرگ بے اماں ہی ملی
انہیں  تو جھومتی گاتی حیات مل جائے
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں
بہت دنوں سے جوانی خواب ویراں ہیں
بہت دنوں سے محبت پناہ ڈھونڈتی ہے
بہت دنوں سے ستم دیدہ شاہراہوں میں
نگار زیست کی عصمت پناہ ڈھونڈتی ہے
چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے
کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز ہمارا نہیں سبھی کا ہے
چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کر لیں

چلو کہ چل کہ سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ  راس نہ  آئے
ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی
اٹھو کہ آج ہر اک جنگجو سے یہ کہ دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے
کہو کہ اب کوئی تاجر ادھر کا رخ نہ کرے
اب اس جگہ کوئی کنواری نہ بیچی جائے گی
یہ کھیت جاگ پڑے .اٹھ کھڑی ہوئیں فصلیں
اب اس جگہ کوئی کیاری نہ بیچی جائے گی
یہ سر زمیں ہے گوتم کی اور نانک کی
اس ارض پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہمارا خون امانت ہے نسل نو کے لئے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے '
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسمان کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
  تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کبھی بےبس کا سہارا نہیں ہوتی 

ردعمل


چند کلیاں نشاط کی چن کر

مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی

تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ایک منظر


افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا

فضا تن گئی راستے مسکرائے


سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر!

جواں شاخساروں نے گھونگھٹ اٹھائے


پرندوں کی آواز سے کھیت چونکے

پراسرار لَے میں رہٹ گنگنائے


حسیں شبنم آلود پگدنڈیوں سے

لٹنے لگے سبز پیڑوں کےسائے


وہ دور ایک ٹیلے پہ آنچل سا جھلکا

تصور میں لاکھوں دیئے جھلملائے

 
Make a Free Website with Yola.