یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا
خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا
صورت شمع تیرے سامنے روشن ہیں جو پھول
ان کی کرنوں میں نہا, ذوق سماعت پہ نہ جا
دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا
جی کو بھا جائے کو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا
اتنا کم ظرف نہ بن, اس کے بھی سینے میں ہے دل
اس کا احساس بھی رکھ, اپنی ہی راحت پہ نہ جا
دیکھتا کیا ہے ٹھہر کر میری جانب ہر روز
روزن در ہوں میری دید کی حیرت پہ نہ جا
تیرے دل سوختہ بیٹھے ہیں سر بام ابھی
بال کھولے ہوئے تاروں بھری اس چھت پہ نہ جا
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک, میری ظاہری حالت پہ نہ جا
تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں
دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں
تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی نہ تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں
جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں
ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملا لِ شامِ الم کس لئے کریں
یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
ہمارے بھولنے والے بھی اس عذاب میں ہیں
اسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنوں ، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تری ہی دھن میں ہیں اب تک اسی سراب میں ہیں
عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سوکھے ہوئے پھول اس کتاب میں ہیں
شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اک شہرِ زیر آب میں ہیں
ملیں پھر آکے اسی موڑ پر دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کشا ملیں سائے
ہر ے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھی دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کشا ملیں سائے
ہر ے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھر دعا کرنا
مرا ہے کون دشمن ، میری چاہت کون رکھتا ہے
اسی پر سوچتے رہنے کی فرصت کون رکھتا ہے
مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی
وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے
نہیں ہے نرخ کوئی میرے ان اشعارِ تازہ کا
یہ میرے خواب ہیں ، خوابوں کی قیمت کون رکھتا ہے
درِ خیمہ کھلا رکھا ہے گل کر کے دیا ہم نے
سو ، اذئف عام ہے ، لو ، شوقِ رخصت کون رکھتا ہے
مرے دشمن کا قد اس بھیڑ میں مجھ سے تو اونچا ہو
یہی میں ڈھونڈتا ہوں ، ایسی قامت کون رکھتا ہے
ہمارے شہر کی رونق ہے کچھ مشہور لوگوں سے
مگر سب جانتے ہیں کیسی شہرت کون رکھتا ہے
تم کن پر نظمیں لکھتے ہو
تم کن پر گیت بناتے ہو
تم کن کے شعلے اوڑھتے ہو
تم کن کی آگ بجھاتے ہو
اے دیدہ ورو!
انصاف کرو
اس آگ پہ تم نے کیا لکھا؟
جس آگ میں سب کچھ راکھ ہُوا
مری منزل بھی، مرا رستہ بھی
مرا مکتب بھی، مرا بستہ بھی
مرے بستے کے لشکارے بھی
مرے ست رنگے غبارے بھی
مرے جگنو بھی، مرے تارے بھی
اے دیدہ ورو!
انصاف کرو
وہ راہ نہیں دیکھی میں نے
جو مکتب کو جاتی ہے
اس ہوا نے مجھ کو چھوا نہیں
جو نیندوں کو مہکاتی ہے
اور میٹھے خواب دکھاتی ہے
اس کرب پہ تم نے کیا لکھا؟
اے دیدہ ورو!
انصاف کرو
مری تختی کیسے راکھ ہوئی؟
مرا بستہ کس نے چھین لیا؟
مری منزل کس نے کھوٹی کی؟
مرا رستہ کس نے چھین لیا؟
انصاف کرو اے دیدہ ورو!
انصاف کرو!