urdu hai jis ka nam

جسے آنسوؤں سے مٹائیں ہم جسے دوسروں سے چھپائیں ہم

سو یہ خیریت رہی عمر بھر کوئی حرف ایسا لکھا نہیں

ہمیں اعتبار نہیں ملا کوئی لمحہ اپنے لئے کبھی

لکھے دوسروں کے عذاب جاں, مگر اپنا نوحہ لکھا نہیں

 یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا
خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا
صورت شمع تیرے سامنے روشن ہیں جو پھول
ان کی کرنوں میں نہا, ذوق سماعت پہ نہ جا
دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا
جی کو بھا جائے کو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا
اتنا کم ظرف نہ بن, اس کے بھی سینے میں ہے دل
اس کا احساس بھی رکھ, اپنی ہی راحت پہ نہ جا
دیکھتا کیا ہے ٹھہر کر میری جانب ہر روز
روزن در ہوں میری دید کی حیرت پہ نہ جا
تیرے دل سوختہ بیٹھے ہیں سر بام ابھی
بال کھولے ہوئے تاروں بھری اس چھت پہ نہ جا
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک, میری ظاہری حالت پہ نہ جا

 تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں
دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں
تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی
نہ تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں
جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں
ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملا لِ شامِ الم کس لئے کریں


 یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
ہمارے بھولنے والے بھی اس عذاب میں ہیں
اسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنوں ، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تری ہی دھن میں ہیں اب تک اسی سراب میں ہیں
عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سوکھے ہوئے پھول اس کتاب میں ہیں
شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اک شہرِ زیر آب میں ہیں


 ملیں پھر آکے اسی موڑ پر دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کشا ملیں سائے
ہر ے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھی دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کشا ملیں سائے
ہر ے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھر دعا کرنا

مرا ہے کون دشمن ، میری چاہت کون رکھتا ہے
اسی پر سوچتے رہنے کی فرصت کون رکھتا ہے
مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی
وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے
نہیں ہے نرخ کوئی میرے ان اشعارِ تازہ کا
یہ میرے خواب ہیں ، خوابوں کی قیمت کون رکھتا ہے
درِ خیمہ کھلا رکھا ہے گل کر کے دیا ہم نے
سو ، اذئف عام ہے ، لو ، شوقِ رخصت کون رکھتا ہے
مرے دشمن کا قد اس بھیڑ میں مجھ سے تو اونچا ہو
یہی میں ڈھونڈتا ہوں ، ایسی قامت کون رکھتا ہے
ہمارے شہر کی رونق ہے کچھ مشہور لوگوں سے
مگر سب جانتے ہیں کیسی شہرت کون رکھتا ہے

تم کن پر نظمیں لکھتے ہو
تم کن پر گیت بناتے ہو
تم کن کے شعلے اوڑھتے ہو
تم کن کی آگ بجھاتے ہو
اے دیدہ ورو!
انصاف کرو

اس آگ پہ تم نے کیا لکھا؟
جس آگ میں سب کچھ راکھ ہُوا
مری منزل بھی، مرا رستہ بھی
مرا مکتب بھی، مرا بستہ بھی
مرے بستے کے لشکارے بھی
مرے ست رنگے غبارے بھی
مرے جگنو بھی، مرے تارے بھی
اے دیدہ ورو!
انصاف کرو

وہ راہ نہیں دیکھی میں نے
جو مکتب کو جاتی ہے
اس ہوا نے مجھ کو چھوا نہیں
جو نیندوں کو مہکاتی ہے
اور میٹھے خواب دکھاتی ہے
اس کرب پہ تم نے کیا لکھا؟
اے دیدہ ورو!
انصاف کرو

مری تختی کیسے راکھ ہوئی؟
مرا بستہ کس نے چھین لیا؟
مری منزل کس نے کھوٹی کی؟
مرا رستہ کس نے چھین لیا؟
انصاف کرو اے دیدہ ورو!
انصاف کرو!

مجھے سارے رنج قبول ہیں اُسی ایک شخص کے پیار میں
مری زیست کے کسی موڑ  پر جو مجھے ملا تھا بہار میں
وہی اک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں, میری خواہشوں کے دیار میں
وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں, کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں
یہ تو صرف سوچ کا فرق ہے یہ تو صرف بخت کی بات ہے
کوئی فاصلہ تو نہیں, تیری جیت میں میری ہار میں
ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے پرے بھی کوئی جہان ہے
کسی شام کوئی دیا جلا کسی دل جلے کے مزار میں
کسی چیز میں کوئی ذائقہ کوئی لطف باقی نہیں رہا
نہ تیری طلب کے گداز میں نہ میرے ہنر کے وقار میں


 کبھی تو نے خود بھی سوچا، کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے
تجھے پا کے بھی مرا دل جو اداس ہے تو کیوں ہے
مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں، مجھے راس ہے تو کیوں ہے
تجھے کھو کے سوچتا ہوں، مرے دامن طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے
میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا، تو بچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے، یہ قیاس ہے تو کیوں ہے
مرے تن برہنہ دشمن، اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم، یہ لباس ہے تو کیوں ہے
کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے
ترا کس نے دل بجھایا، مرے اعتبار ساجد
یہ چراغ ہجر اب تک، ترے پاس ہے تو کیوں ہے


 تھی جس سے روشنی ، وہ دیا بھی نہیں رہ
اب دل کو اعتبارِ ہوا بھی نہیں رہا
تو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے
تو کھو گیا تو اپنا پتہ بھی نہیں رہا
کچھ ہم بھی ترے بعد زمانے سے کٹ گئے
کچھ ربط و ضبط خدا سے بھی نہیں رہا
گویا ہمارے حق میں ستم در ستم ہوا
حرفِ دعا بھی ، دستِ دعا بھی نہیں رہا
کیا شاعری کریں کہ ترے بعد شہر میں
لطف کلام ، کیفِ نوا بھی نہیں رہا


 تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
خدا مجھے یہ تحمل یہ حوصلہ بھی نہ دے
مرے بیان صفائی کے درمیاں مت بول
سنے بغیر مجھے اپنا فیصلہ بھی نہ دے
یہ عمر میں نے ترے نام بے طلب لکھ دی
بھلے سے دامن دل میں کہیں جگہ بھی نہ دے
یہ دن بھی آئیں گے ایسا کبھی نہ سوچا تھا
وہ مجھ کو دیکھ بھی لے اور مسکرا بھی نہ دے
یہ رنجشیں تو محبت کے پھول ہیں ساجد
تعلقات کو ا س بات پر گنوا بھی نہ دے

 میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی
کوئی باغ جل رہا ہے ، یہ مگر مری دعا ہے
مرے پھول تک نہ پہنچے یہ ہوا تمازتوں کی
مرا کون سا ہے موسم مرے موسموں کے والی!
یہ بہار بے دلی کی ، یہ خزاں مروتوں کی
میں قدم بام و در میں انہیں جا کے ڈھونڈتا ہوں
وہ دیار نکہتوں کے ، وہ فضائیں چاہتوں کی
کہیں چاند یا ستارے ہوئے ہم کلام مجھ سے
کہیں پھول سیڑھیوں کے ، کہیں جھاڑیاں پتوں کی
مرے کاغذوں میں شاید کہیں اب بھی سو رہی ہو
کوئی صبح گلستاں کی ، کوئی شام پربتوں کی
کہیں دشت دل میں شاید مری راہ تک رہی ہو
وہ قطار جگنوں کی ، وہ مہک ہری راتوں کی
یہ نہیں کہ دب گئی ہے کہیں گرد روز و شب میں
وہ خلش محبتوں کی ، وہ کسک رفاقتوں کی


بچھڑ کر بھی ترے چہرے پہ اطمینان کیسا ہے
میں ساجد سوچتا رہتا ہوں تو انسان کیسا ہے
پرندوں سے ہوئیں خالی منڈیریں ، پھول سے شاخیں
یہ کیا رت ہے ، یہ شہر دلبراں ویران کیسا ہے
کھلے ہیں تختیوں پر اجنبی ناموں کے گل بوٹے
یہ موسم آشنا گلیوں میں میری جان کیسا ہے
نہیں آتی کسی امید کے قدموں کی آہٹ بھی
کہاں ہیں لوگ اس گھر کے ، یہ دل سنسان کیسا ہے
رگ و پے میں سرِ شب کیسی شمعیں جھلملاتی ہیں
اجالے کا سفر شریان در شریان کیسا ہے
میں بابِ شہر سے نکلا تھا ساجد موسم گل میں
نجانے ان بہاروں میں مرا ملتان کیسا ہے

مجھ کو محسوس کرو روح کی گہرائی میں
یا کسی اجڑی ہوئی گود کی تنہائی میں
یا کسی کھوئے ہوئے شہر کی رعنائی میں
مجھ کو محسوس کرو
تم نے گر لفظ کے آئینہ بے روح میں دیکھا ہوگا
میری سوچوں کے خدوخال کے اجلے پن کو
اس طرح شرحِ خیالات نہیں ہوسکتی
اس طرح تم سے ملاقات نہیں ہوسکتی
مجھ کو محسوس کرو
اپنی خواہش کے جزیروں میں نہ محبوس کرو
صرف محسوس کرو

ونہی تنہا تنہا نہ خاک اُڑا، مری جان میرے قریب آ
میں بھی خستہ دل ہوں تری طرح مری مان میرے قریب آ

میں سمندروں کی ہوا نہیں کہ تجھے دکھائی نہ دے سکوں
کوئی بھولا بسرا خیال ہوں نہ گمان میرے قریب آ

نہ چھپا کہ زخم وفا ہے کیا، تری آرزؤں کی کتھا ہے کیا
تری چارہ گر نہ یہ زندگی نہ جہان میرے قریب آ

تجھے ایسے ویسوں کی دوستی نے بہت خراب و خجل کیا
کسی جھوٹ کی یہ نقاب رُخ پہ نہ تان میرے قریب آ

جو نکل سکے تو نکال لے کوئی وقت اپنے لئے کبھی
مرے پاس بیٹھ کے رو تو لے کسی آن میرے قریب آ

نہ مکالمہ ہو نہ گفتگو فقط اتنا ہو کہ نہ میں نہ تو
ملیں صرف اپنے جلے ہوئے دل و جان میرے قریب آ

**************************************

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ،مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے زنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا ، مری دھڑکنوں کو قرار دو
تمہیں صبح کیسی لگی ، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگے تو یہیں رہو ، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ ہو فکر دیر سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گزار دو
کوئی بات کرنی ھے چاند سے کسی شاخسار کی اوٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو

  یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا
خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا

صورت شمع تیرے سامنے روشن ہیں جو پھول

ان کی کرنوں میں نہا, ذوق سماعت پہ نہ جا
دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا
جی کو بھا جائے کو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا
اتنا کم ظرف نہ بن, اس کے بھی سینے میں ہے دل
اس کا احساس بھی رکھ, اپنی ہی راحت پہ نہ جا
دیکھتا کیا ہے ٹھہر کر میری جانب ہر روز
روزن در ہوں میری دید کی حیرت پہ نہ جا
تیرے دل سوختہ بیٹھے ہیں سر بام ابھی
بال کھولے ہوئے تاروں بھری اس چھت پہ نہ جا
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک, میری ظاہری حالت پہ نہ جا



پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خرد مند بنے پھرتے ہیں ہر محفل میں
اس ترے شہر میں اک صاحبِ وحشت ہم تھے
اب کسی اور کے ہاتھوں میں ترا ہاتھ سہی
یہ الگ بات کبھی اہلِ رفاقت ہم تھے
رتجگوں میں تری یاد آئی تو احساس ہوا
تیری راتوں کا سکوں نیند کی راحت ہم تھے
اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے


معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ
بچھڑے گا تو پھر یاد بھی آئے گا بہت وہ
اب جس کی رفاقت میں بہت خندہ بہ لب ہیں
اس بار ملے گا تو رلائے گا بہت وہ
چھوڑ آئے گا تعبیر کے صحرا میں اکیلا
ہر چند ہمیں خواب دکھائے گا بہت وہ
وہ موج ہوا بھی ہے ذرا سوچ کے ملنا
امید کی شمعیں تو جلائے گا بہت وہ
ہونٹوں سے نہ بولے گا پر آنکھوں کی زبانی
افسانے جدائی کے سنائے گا بہت وہ

 

میں جانتا تھا ایسا بھی اک دور آئے گا
دیوان بھی مرا ، تو ہر اک سے چھپائے گا
پوچھے گا جب کوئی ترا دکھ ، ازراہِ خلوص
تو اس کو دوسروں کے فسانے سنائے گا
جو بات بھولنے کی ہے یاد آئے گی تجھے
رکھنا ہے جس کو یاد اسے بھول جائے گا
دل سوختہ ملے گا تجھے جب کوئی کہیں
شدت سے ایک شخص تجھے یاد آئے گا
چھوڑا ہے اس کا شہر فقط اس خیال سے
جب ہم نہ ہوں گے اور وہ کس کو ستائے گا
اس نے بھی کر لیا ہے یہ وعدہ کہ عمر بھر
کچھ بھی ہو ، اب وہ دل نہ کسی کا دکھائے گا

 کوئی تو تھا پسِ ہوا، آخرِ شب کے دشت میں
ہم سے ہم کلام تھا آخر شب کے دشت میں
جیسے کسی کی یاد نے سینے پہ ہاتھ رکھ دیا
جیسے کوئی دیا جلا آخر شب کے دشت میں
ایک ہجوم دلبراں ، ایک جلوس رفتگاں
بچھڑا تو ہم سے آملا آخر شب کے دشت میں
اک جو ملال ہجر تھا صبح طلب سے شام تک
ہم نے کہیں گنوا دیا آخر شب کے دشت میں
ایسا لگا کہ اوس میں بھیگے ہوئے درخت سے
موج ہوا نے کچھ کہا آخر شب کے دشت میں
زینہ دل پہ چاپ سی جانے تھی کس خیال کی
درد تلک کوئی نہ تھا آخر شب کے دشت میں

کتنی بدل چکی ہے رت ، جذبے بھی وہ نہیں رہے
دل پہ ترے فراق کے صدمے بھی وہ نہیں رہے
محفلِ شب میں گفتگو اب کے ہوئی تو یہ کھلا
باتیں بھی وہ نہیں رہیں لہجے بھی وہ نہیں رہے
حلیئے بدل کے رکھ دئیے جیسے شبِ فراق نے
آنکھیں بھی وہ نہیں رہیں ، چہرے بھی وہ نہیں رہے
اس کا مہِ جمال بھی گویا غروب ہو چلا
اپنے وفودِ شوق کے چرچے بھی وہ نہیں رہے
ہوش و خرد گنوا چکے ، خود سے بھی دور جا چکے
لوگ جو تیرے تھے کبھی اپنے بھی وہ نہیں رہے
یہ بھی ہوا کہ تیرے بعد ، شوق سفر نہیں رہا
جن پہ بچھے ہوئے تھے دل ، رستے بھی وہ نہیں رہے

نا گنواؤ اپنا سکون تم مری چاہ میں
میں غبار ہوں تو بکھیر دو مجھے راہ میں
اسی ایک شامِ خزاں کا حزن و ملال ہے
کوئی اور عکس نہیں ہے میری نگاہ میں
تجھے کھو کے تیری انا کا میں نے بھرم رکھا
کئی کلفتیں کئی مشکلیں تھیں نباہ میں
ترے آنسوں نے بدل دیے مرے راستے
کئی لوگ تھے مری راہ میں مری چاہ میں
بڑی بد مزہ سی گزر رہی ہے یہ زندگی
نہ ثواب میں وہ مزہ رہا نہ گناہ میں

نہ پوچھ ہم سے کہ اس گھر میں کیا ہمارا ہے

اسی میں خوش ہیں کہ حسنِ فضا ہمارا ہے

الگ مزاج ہے اپنا تمام لوگوں سے

تمام قصوں میں قصہ جدا ہمارا ہے

کسی بھی خشت پہ ہر چند حق نہیں رکھتے

مگر یہ شہر بفضلِ خدا ہمارا ہے

ہماری شہرتوں ، رسوائیوں کے کیا کہنے

کہ سنگ راہ بھی نام آشنا ہمارا ہے

جلاتے پھرتے ہیں ہم کاغذی گھروں میں چراغ

رہے یہ ڈھنگ ، تو حافظ خدا ہمارا ہے

دلوں کے قرے بیگانگی میں رہتے ہیں

سو ، دوستو یہی تازہ پتہ ہمارا ہے

ہمیں یہ آخری خوش فہمیاں نہ لے ڈوبیں

کہ سیل آب شریک نوا ہمارا ہے

بہت ہے شور مگر اطمینان بھی کر یہاں

کوئی تو ہے جو سخن آشنا ہمارا ہے

Make a Free Website with Yola.