urdu hai jis ka nam


لہو نہ ہو تو قلم ترجمان نہیں‌ہوتا
ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا

جہاں رہے گا' وہیں روشنی لُٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا

بس اک نگاہ مری راہ دیکھتی ہوگی
یہ سارا شہر مرا میزباں نہیں ہوتا

میں اُس کو بھول گیا ہوں یہ کون مانے گا
کسی چراغ کے بس میں دھواں نہیں ہوتا

وسیم صدیوں کی آنکھوں سے دیکھیے مجھ کو
وہ لفظ ہوں جو کبھی داستاں نہیں ہوتا


اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے


گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے

پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے


قہقہہ آنکھ کا برتاؤ ، بدل دیتا ہے

ہنسنے والے تجھے آنسو نظر آئیں کیسے


کوئی اپنی ہی نظر سے تو ہمیں دیکھے گا

ایک قطرے کو سمندر نظر آئیں کیسے

زندگی تجھ پہ اب الزام کوئی کیا رکھے
اپنا احساس ہی ایسا ہے جو تنہا رکھے

کن شکستوں کے شب و روز سے گزرا ہوگا
وہ مصور جو ہر اک نقش ادھورا رکھے

خشک مٹی ہی نے جب پاؤں جمانے نہ دیئے
بہتے دریا سے پھر امید کوئی کیا رکھے

آغم دوست اسی موڑ پہ ہوجاؤں جدا
جو مجھے میرا ہی رہنے دے نہ تیرا رکھے

آرزؤں کے بہت خواب تو دیکھو ہو وسیم
جانے کس حال میں بے درد زمانہ رکھے


ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو

کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو

وہ بے خیال مسافر، میں راستہ یارو

کہاں تھا بس میں مرے اسکو روکنا یارو

مرے قلم پہ زمانے کی گرد ایسی تھی

کہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہ لکھ سکا یارو

تمام شہر ہی جسکی تلاش میں گُم تھا

میں اسکے گھر کا پتہ کس سے پوچھتا یارو

Make a Free Website with Yola.