urdu hai jis ka nam

اسیر ِ دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں‌کو بس دعا کہنا

یہ کہنا رات گذرتی ہے اب بھی آنکھوں‌میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا

یہ کہنا مسند شاخ نمو پہ تھا جو کبھی
وہ پھول صورت خوشبو بکھر گیا کہنا

یہ کہنا ہم نے ہی طوفاں‌ میں‌ ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا

یہ کہنا ہو گئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لُو تو اسے بھی خنک ہوا کہنا

یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں‌سے
بجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا

یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہٓ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا
یہ انتقام ہے دشتِ بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا
تمھارا قُرب بھی دُوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اُتر آنا
مرے یقین کو بڑا بدگمان کرکے گیا
دعائے نیم شب تیرا بے اثر جانا
عجب ہیں رزم گاہِ زندگی کے یہ انداز
اُسی نے وار کیا جس نے بے سپر جانا
ہمارے دم سے ہی آوارگیِ شب تھی
ہمیں عجیب لگے شام ہی سے گھر جانا
Make a Free Website with Yola.