دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ گم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دل نا کردہ کار کے
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی، مگر اتنی رائگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرُو ڈبو بیٹھے
ساری دنیا سے دور ہو جائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ گئی تیرے بے رُخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیض ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے